روانی سے قرآن پڑھنے کا حکم

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!

نیز جب ہم قران پاک کو روانی سے پڑھ رہے ہوتے ہیں تو تجوید کا اتنا لحاظ نہیں رکھ پاتے اگر ہر حرف کو صحیح ادا کیا جائے تو کافی وقت درکار ہوتا ہے جب کہ عام لوگ جیسے قران خوانی وغیرہ کرتے ہیں تو جلدی میں ہی پڑھتے ہیں اس کا کیا حکم ہے ؟ کیا روانی سے پڑھتے ہوے بھی ہم تجوید کو مد نظر رکھ سکتے ہیں یا پھر پڑھنے کی رفتار بلکل آھستہ کرنا ضروری ہے ؟

الجواب حامدا ومصلیا

قرآن پاک کو پڑھنے کے لئے مختلف قسم کے قواعد ہیں۔جن میں سے بعض وہ ہیں جنکی وجہ سے مفہوم و معانی تبدیل ہوجاتے ہیں،اور بعض ایسے ہیں جنکا تعلق معانی سے نہیں بلکہ قرآءت کی خوبصورتی سے ہے۔تلاوت قرآن کریم کے لئے کم از کم اتنی رفتار رکھنا ضروری ہے کہ جس میں ضروری قواعد نہ چھوٹیں۔

(مستفاد: تسہیل جمال القرآن ۵-۶)

ثم القراء ة علی ثلاثة أوجہ في الفرائض: علی التؤدة والترسل والتدبر حرفاً حرفاً۔ وفي التراویح یقرأ بقراء ة الأئمة بین التؤدة والسرعة، وفي النوافل باللیل لہ أن یسرع بعد أن یقرأ کما یفہم وذٰلک مباح۔ (الفتاویٰ التاتارخانیة ۲/۶۷رقم: ۱۷۶۲زکریا)۔

فی الدر المختار۔ ویجتنب المنکرات ھذرمۃ القراء ۃ وفی الشامی ھذرمۃ الخ سرعۃ الکلام والقراء ۃ ۔

واللہ سبحانہ اعلم

اپنا تبصرہ بھیجیں