صدقہ وخیرات کے فضائل

صدقہ وخیرات کے فضائل

1-نبی کریم ﷺ نے فرمایا! سخاوت اللہ تعالیٰ کی عظیم صفت ہے یعنی اللہ تعالیٰ بہت بڑے سخی ہیں۔ ( رواہ ابن النجار )

2- نبی کریم ﷺ نے فرمایا!’’بندہ (بعض اوقات) روٹی کا ایک ٹکڑا صدقہ کرتا ہے (پھر) اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ اُحد پہاڑ جتنا بڑھ جاتا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اس کا ثواب اتنا بڑھادیتے ہیں جتنا احد پہاڑ کے برابر خرچ کرنے پر ملتا، اس لیے معمولی صدقے سے بھی گریز نہ کرنا چاہیے، جو توفیق ہو اللہ کی راہ میں صدقہ کردینا چاہیے۔

3- نبی کریم ﷺ نے فرمایا! ’’جہنم سے بچاؤ کا سامان کرلو، چاہے کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ کرکے کرو۔‘‘ ( رواہ الطبرانی )یعنی اگر چہ تھوڑی سی چیز ہی ہو خیرات کردو، یہ نہ سوچو کہ اتنی سی چیز کی کیا خیرات کریں، کیا پتہ یہی جہنم سے نجات کا ذریعہ بن جائے۔

4- نبی کریم ﷺ نے فرمایا! ’’صدقہ کے ذریعہ روزی طلب کرو۔‘‘( کنزالعمال )یعنی صدقہ کیا کرو اس کی برکت سے روزی میں ترقی ہوگی۔

5- نبی کریم ﷺ نے فرمایا!’’احسان اور بھلائی بری موت سے بچاتی ہے، پوشیدہ طور پر صدقہ کرنا اللہ تعالیٰ کے غصے کو ٹھنڈا کرتا ہے اور رشتہ داروں سے حسن سلوک کرنا عمر کو بڑھاتا ہے۔‘‘ ( رواہ الطبرانی )

6- نبی کریم ﷺ نے فرمایا! ’’سائل کا حق ہے، چاہے وہ گھوڑے پر آئے۔‘‘یعنی سائل جس سے سوال کرے اس پر سائل کا حق ہے،چاہے سائل کی بظاہر کتنی ہی اچھی حالت کیوں نہ ہو، یہاں تک کہ اگر گھوڑے پر سوار ہوجوکہ بظاہر مالداری کی علامت ہے، اس کو بھی دے دینا چاہیے، اس لیے کہ ایسا شخص عموماً کسی مجبوری کی وجہ سے ہی سوال کرتا ہے، یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ یہ گھوڑے پر سوار ہے، یہ کیسے محتاج ہوسکتا ہے؟ البتہ اگر کسی طرح یہ معلوم ہوجائے کہ یہ ضرورت مند نہیں بلکہ اس نے مال کمانے کے لیے بھیک مانگنے کا پیشہ اختیار کرلیا ہے تو اس کو دینا حرام ہے اور اس کے لیے مانگنا بھی حرام ہے۔

7- نبی کریم ﷺ نے فرمایا!’’اللہ تعالیٰ کریم ہے اور کرم کو پسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بلند اخلاق محبوب ہیں (بلند ہمتی کے نیک کام، جیسے: صدقہ و خیرات کرنا، ذلت سے بچنا، دوسرے کو تکلیف سے بچانے کے لیے خود تکلیف اٹھانا وغیرہ) اور اللہ تعالیٰ کو گھٹیا اخلاق ناپسند ہیں۔‘‘ (جیسے دینی امور میں کم ہمتی) ( رواہ الحاکم وغیرہ )

8- نبی کریم ﷺ نے فرمایا!’’صدقہ قبر کی گرمی کو ٹھنڈا کرتا ہے اور یقینا قیامت کے دن مسلمان اپنے صدقہ کے سایہ میں ہوگا۔‘‘( رواہ الطبرانی )

9- نبی کریم ﷺ نے فرمایا!’’بے شک اللہ تعالیٰ کے کچھ خاص بندے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی حاجتیں پوری کرنے کے لیے منتخب فرمالیا ہے۔ لوگ مجبوری کی حالت میں ان کے پاس آتے ہیں، یہ لوگ حاجتیں پوری کرنیوالے اور اللہ کے عذاب سے امن پانے والے ہیں۔ ‘‘

10- نبی کریم ﷺ نے فرمایا!’’اے بلال! خرچ کر اور عرش والے کی طرف سے کمی کا اندیشہ نہ کر۔‘‘یعنی مناسب مواقع پر خوب خرچ کرو اور اللہ تعالیٰ سے کمی کا اندیشہ نہ کرو۔

اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ ہر شخص بے حدوحساب خرچ کرے اور پھر پریشان ہو، بلکہ جو ہمت والے لوگ ہیں اور ان میں صبر کی قوت ہے، وہ جتنا چاہیں نیک کاموں میں خرچ کریں، بشرطیکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو، اس لیے کہ ہاتھ تنگ ہوجانے کی صورت میں وہ صبروہمت سے کام لیں گے اور انہیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے ہمیں مزید عطا فرمائے گا، لیکن جو کمزور دل ہیں اگر آج خرچ کردینے سے کل ان پر تنگی ہوگئی توان کی ہمت پست ہوجائے گی، ان کے لیے زیادہ خرچ مناسب نہیں، وہ صرف شریعت کی طرف سے مقرر کیے ہوئے ضروری مواقع پر ہی خرچ کریں، جیسے: زکوٰۃ، صدقۂ فطرہ وغیرہ، اسی طرح ضرورت کے مواقع میں بھی خرچ کریں۔ خوب سمجھ لیں! یہ تشریح حضورﷺکے عمل سے ثابت ہے جس کی تفصیل درجِ ذیل ہے:

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک بار جہاد کے لیے اپنا تمام مال رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش کردیا۔ آپﷺنے پوچھا: ’’گھر میں کیا چھوڑا ہے؟‘‘انہوں نے عرض کیا: ’’اللہ اور اس کے رسول کانام چھوڑ آیا ہوں۔‘‘ آپﷺنے وہ تمام مال ان سے قبول کرلیا، اس لیے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نہایت اعلیٰ مقام پر فائز تھے، ان کے پریشان ہوجانے کا اندیشہ نہیں تھا، مگر ایک دوسرے موقع پر ایک اور صحابی نے معمولی سا سونا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو آپ ﷺنے قبول نہیں فرمایا۔اس لیے کہ ان کے پاس مزید کوئی سامان نہیں تھا۔

11- نبی کریم ﷺ نے فرمایا!’’نیکی کی جگہ بتلانے والا (ثواب میں) نیکی کرنے والے کی طرح ہے۔‘‘ ( رواہ البزار )یعنی جوشخص کسی کو حسن سلوک کی جگہ بتادے، یا کسی ضرورت مند کی جائز سفارش کردے جس سے اس کی ضرورت پوری ہوجائے تو اس کو ایسا ہی ثواب ملے گا جیسا کہ اس نے خود ضرورت مند کی مدد کی ہو۔

12- نبی کریم ﷺ نے فرمایا!’’تین آدمی تھے: ایک کے پاس دس دینار تھے، اس نے ایک دینار صدقہ کردیا، دوسرے کے پاس دس اوقیہ چاندی (چار سو درہم) تھے اس نے ایک اوقیہ (چالیس درہم) صدقہ کردیا، تیسرے کے پاس سو اوقیہ تھے اس نے دس اوقیہ صدقہ کردیے۔ ان سب کو برابر ثواب ملا، اس لیے کہ ہر ایک نے اپنے مال کا دسواں حصہ صدقہ کیا۔ ‘‘

یعنی اگر چہ ان میں سے بعض کے صدقہ کی مقدار دوسرے سے زیادہ تھی مگر اللہ تعالیٰ نیت کو دیکھتے ہیں اور چونکہ ہر ایک نے اپنے مال کا دسواں حصہ نکالا، اس لیے ثواب میں برابر رہے۔

13- نبی کریم ﷺ نے فرمایا!’’ایک درہم ایک لاکھ درہم سے بڑھ گیا۔ (اس کی صورت یہ بیان فرمائی کہ) ایک شخص کے پاس صرف دو درہم ہیں، اس نے ان میں سے ایک درہم صدقہ کردیا، دوسرے کے پاس کئی لاکھ درہم ہیں، اس نے ان میں سے ایک لاکھ درہم صدقہ کیا۔‘‘ ( رواہ النسائی )

یعنی پہلا شخص باوجود تھوڑا صدقہ کرنے کے ثواب میں بڑھ گیا اس لیے کہ اس نے اپنے مال کا نصف صدقہ کردیا، جبکہ دوسرے کے صدقے کی رقم اگر چہ زیادہ ہے مگر وہ اس کے آدھے مال سے بہت کم ہے، اس لیے پہلے کے مقابلے میں اس کو کم ثواب ملا۔ اللہ تعالیٰ کی کیسی رحمت ہے! اس کی قدر کریں۔

رسول اللہ ﷺنے کبھی کسی سائل کو انکار نہیں فرمایا، اگر کچھ ہوا دے دیا، ورنہ دوسرے وقت آنے کا وعدہ فرمالیا اور ساری زندگی آپ ﷺ اور آپ کے گھر والوں نے جو کی روٹی بھی دو دن مسلسل سیر ہوکر نہیں کھائی۔

کیسی بے رحمی کی بات ہے کہ آدمی کے پاس گنجائش ہونے کے باوجود اپنے مسلمان بھائی کی مدد نہ کرے اور خود آرام سے رہے۔

14- نبی کریم ﷺ نے فرمایا!’’مؤمن کے دروازے پر سائل اللہ کی طرف سے ہدیہ ہے۔‘‘( رواہ الخطیب )

ظاہر ہے ہدیہ اچھی طرح قبول کرنا چاہیے،بالخصوص جبکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہو، لہٰذا سائل کی حسب ِ حیثیت خوب خدمت کرنی چاہیے۔

15- نبی کریم ﷺ نے فرمایا!’’صدقہ کیا کرو اور اپنے بیماروں کا علاج صدقہ کے ذریعہ سے کیا کرو، اس لیے کہ صدقہ آفات اور بیماریوں کو دور کرتا ہے اور تمہاری عمروں اور نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے۔‘‘ ( رواہ الدیلمی )

16-فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کا ہر ولی سخاوت اور اچھی عادت پر پید اکیا گیا ہے۔‘‘ ( رواہ ابن ماجہ )یعنی اللہ تعالیٰ کے ہرولی میں سخاوت اور اچھی عادات ہوتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں