سرکاری ڈیوٹی کئےبغیرتنخواہ حاصل کرنااوراسےقربانی کاحکم

سوال:محترم استاد صاحب :السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

 دریافت یہ کرناہےکہ اگرایک شخص جوکہ قریبی رشتہ دارہےاوروہ دوجگہ نوکری کرتےہیں ایک گورنمنٹ کی نوکری ہےجبکہ وہ اس پرجاتےنہیں اوردوسری آغاخان  ہسپتال میں مگروہاں  معمول کےمطابق کام سرانجام دےرہےہیں اب آیاوہ کوئی چیزدیں تواستعمال کی جاسکتی ہےیانہیں ؟مثلاً مٹھائی وغیرہ دیں  یاکوئی اورچیزلائیں؟

کیا وہ اگرقربانی کریں ان پیسوں سےتوکیاہوجائیگی ؟ اوردونوں جگہ کی تنخواہ جائزنہ ہوگی یاصرف ایک کی ؟ براہِ کرم تحریری جواب عنایت فرمادیں ؟         

الجواب حامدا   ومصلیا

            صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کوسرکاری نوکری کےنام سےملنےوالی تنخواہ کی کل رقم شرعاً حرام ہےجس کیلئےاس پرلازم ہےکہ وہ اب تک لی ہوئی تمام رقم متعلقہ سرکاری محکمہ کوواپس کرےاور آئندہ اگران دونوں جگہوں کی نوکری کےاوقات میں تصادم نہ ہوتو دونوں کوپوراوقت دےاوراگر دونوں کاوقت ایک ہی ہےتوکسی ایک جگہ سےاستعفاء دیکردوسری جگہ دلجمعی سےکام کرکےحلال محنتانہ وصول کرے ہسپتال میں اگریہ شخص جائزامورکی انجام دہی کےشعبہ سےمنسلک ہےاوراس ذمہ داری کومکمل پابندی سےسرانجام دےرہا ہےتوتنخواہ کی یہ رقم شرعاًاس کیلئےحلال ہےلہذااس شخص کےاعزا و اقارب  احباب اوروہ لوگ جن کااس سےتعلق ہےانکےلئےشرعاًحکم یہ ہےکہ اس شخص کی کل اور مجموعی آمدنی میں اگرحرام کاتناسب زیادہ ہےتوانکےہاں دعوت کھاناانکےہدایاوصول کرنایا انکی  کوئی چیز استعمال کرناشرعاًجائزنہیں ہے

اوراگرحلال آمدنی یعنی ہسپتال کی جائزنوکری  کےعوض ملنے والی تنخواہ کا تناسب شرح فیصد میں زیادہ ہےتوانکےہاں کی مٹھائی کھانی یااورکوئی ہدایاوصول کرنےکی گنجائش ہےتاہم اجتناب پھربھی کرناچاہیے۔

جیساکہ فتاوٰی عالمگیری (5/343)میں ہے:

وَفِي الرَّوْضَةِ يُجِيبُ دَعْوَةَ الْفَاسِقِ وَالْوَرَعُ أَنْ لَا يُجِيبَهُ وَدَعْوَةُ الَّذِي أَخَذَ الْأَرْضَ مُزَارِعَةً أَوْ يَدْفَعُهَا عَلَى هَذَا، كَذَا فِي الْوَجِيزِ لِلْكَرْدَرِيِّ. آكِلُ الرَّبَّا وَكَاسِبُ الْحَرَامِ أَهْدَى إلَيْهِ أَوْ أَضَافَهُ وَغَالِبُ مَالِهِ حَرَامٌ لَا يَقْبَلُ، وَلَا يَأْكُلُ مَا لَمْ يُخْبِرْهُ أَنَّ ذَلِكَ الْمَالَ أَصْلُهُ حَلَالٌ وَرِثَهُ أَوْ اسْتَقْرَضَهُ، وَإِنْ كَانَ غَالِبُ مَالِهِ حَلَالًا لَا بَأْسَ بِقَبُولِ هَدِيَّتِهِ وَالْأَكْلِ مِنْهَا، كَذَا فِي الْمُلْتَقَطِ

حرام آمدنی کےپیسوں سےقربانی کرناجائزنہیں ہےاورنہ ہی ان پیسوں سےقربانی اداہوگی اگر جائزآمدنی میں اتنی بچت ہےکہ قربانی  اس شخص پرواجب ہوتی ہوتواس حلال کی رقم سےہی اداکرناواجب ہوگی مال ِحرام سےاداکرنےکی صورت میں واجب قربانی ادانہیں ہوگی۔

التخريج

(۱)البناية شرح الهداية – (12 / 209)

وأما الإهدار والضيافة فينظر إن كان غالبا المهدي والضيف لا يقبله ما لم يجز أن ذلك المال حلال، وإن كان غالب ماله حلالا فلا بأس بأن يقبل حتى يتبين عنده أنه حرام.

بريقة محمودية في شرح طريقة محمدية وشريعة نبوية – (6 / 391)

( لَا يُتْرَكُ كُلُّهُ فَالْأَوْلَى وَالْأَحْوَطُ الِاحْتِرَازُ عَنْ بَعْضِ الشُّبُهَاتِ ) لَعَلَّهُ مَا يَكُونُ قَوِيًّا ، وَإِلَّا فَالْبَعْضُ الْمُطْلَقُ لَا يُمْكِنُ احْتِرَازُهُ كَمَا بَيَّنَهُ قَوْلُهُ ( مِمَّا فِيهِ أَمَارَةٌ ظَاهِرَةٌ لِلْحُرْمَةِ ) كَغَلَبَةِ الظَّنِّ فِي حُرْمَتِهِ لَكِنَّ ظَاهِرَ حَدِيثِ { الْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ لَا يَعْلَمُهُنَّ كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ فَمَنْ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ فَقَدْ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ } فَيُجْعَلُ عَلَى هَذَا مِنْ قَبِيلِ عَامٍّ خُصَّ مِنْهُ الْبَعْضُ وَمَعَ هَذَا الْأَوْلَى مُطْلَقُ الِاجْتِنَابِ عَلَى قَدْرِ الْإِمْكَانِ عَنْ الْبَزَّازِيَّةِ غَالِبُ مَالِ الْمَهْدِيِّ إنْ حَلَالًا لَا بَأْسَ بِقَبُولِ هَدِيَّتِهِ وَأَكْلِ مَالِهِ مَا لَمْ يَتَبَيَّنْ أَنَّهُ مِنْ حَرَامٍ وَإِنْ غَالِبُ مَالِهِ حَرَامًا لَا يَقْبَلُهَا وَلَا يَأْكُلُ لَا إذَا قَالَ : إنَّهُ حَلَالٌ وَرِثَهُ أَوْ اسْتَقْرَضَهُ فَلَوْ كَانَ غَالِبُ مَالِهِ حَلَالًا لَا بَأْسَ بِهِ مَا لَمْ يَتَبَيَّنْ أَنَّهُ حَرَامٌ ، وَفِي قَاضِي خَانْ ؛ لِأَنَّ أَمْوَالَ النَّاسِ لَا تَخْلُو عَنْ قَلِيلِ حَرَامٍ فَيُعْتَبَرُ الْغَالِبُ ( مِمَّا يُمْكِنُ الِاحْتِرَازُ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ تَرْكِ مَا فِعْلُهُ أَوْلَى مِنْهُ بِهِ ) أَيْ أَوْلَى مِمَّا احْتَرَزَ مَثَلًا إذَا كَانَ فِي التَّوَرُّعِ مِنْ ذَلِكَ خَوْفُ الرِّيَاءِ الَّذِي هُوَ حَرَامٌ قَطْعِيٌّ أَوْ خَوْفُ لُحُوقِ الضَّرَرِ لِنَفْسِهِ أَوْ مَالِهِ أَوْ أَقْرِبَائِهِ أَوْ الْأَذَى لَهُ أَوْ عَدَمُ نُفُوذِ قَوْلِهِ فِي دَفْعِ الْمُنْكَرِ أَوْ نَحْوُ ذَلِكَ ، فَعَدَمُ الِاحْتِرَازِ أَوْلَى وَأَهَمُّ ذَكَرَهُ الْمُحَشِّي

الفقه على المذاهب الأربعة – الجزيري – (2 / 38)

أولا : أن لا يكون الداعي فاسقا مجاهرا بالفسق فلا تسن إجابة الفاسق والظالم بل تكون خلاف الأولى لأنه ينبغي أن يتورع عن أكل طعام الظلمة وإن كان يحل، ثانيا : أن لا يكون غالب ماله حراما فإن علم بذلك فإنه لا تجب عليه الإجابة ولا يأكل ما لم يخبره بأن المال الذي صنع منه الطعام حلال أصابه بالوراثة ونحوها فإن كان غالب ماله حلالا فإنه لا بأس بالإجابة والأكل

اپنا تبصرہ بھیجیں