شوہر کا بیوی کو درس میں جانے سے روکنا

السلام علیکم! 

ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے۔

(ا) اگر شوہر اپنی بیوی کو درس میں جانے سے روکے جبکہ دیگر دنیاوی امور کو انجام دینے میں یا آنے جانے پر کوئی روک ٹوک نہ ہو تو کیا حکم ہے؟

(2) اسی طرح اگر والد اپنی اولاد کو دینی تعلیم حاصل کرنے سے منع کرے اور کہے کہ عصری تعلیم حاصل کرو جبکہ دینی علم صرف مطالعہ کرنے سے مل جاتا ہے تو اولاد کو ایسے وقت کیا حکم ہے؟ 

(3) یہ بات بھی ذھن میں رہے کہ یہ والد/شوہر خود بھی اہل علم میں سے نہیں ہیں بلکہ خود ہی مطالعہ کر کے عمل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔

بنت آدم

گلشن

الجواب حامدۃًومصلیۃًو مسلمۃً

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ!

(1) جس کو جن مسائل سے واسطہ پڑتا ہو اس کے لیے ان مسائل کو سیکھنا ضروری ہے۔ عورت کو ان مسائل سے واسطہ پڑتا ہے: وضو، غسل، پاکی ناپاکی، ماہ واری، زچگی،نماز، زکوة، زیب وزینت، تربیت اولاد، حقوق زوجین وغیرہ۔

اگر سوال میں مذکور عورت ان ضروری مسائل کو سیکھنے کے لیے درس میں جانا چاہتی ہے اور گھر میں کوئی محرم بھی نہیں جو ان مسائل کی تعلیم دے سکے تو اس صورت میں شوہر کی مرضی کے بغیر درس میں جانا جائز ہے۔بصورت دیگر شوہر کی اتباع عورت پر لازم ہے،یعنی اگر وہ ضروری معاملات یا فرض عین علوم حاصل کر چکی ہے تو شوہر کی اجازت کے بغیر جانا جائز نہیں۔

( “لَا یَحِلُّ لِلمَراَۃِ اَن تَصُومَ وَزَوجُہَا شَاہِدٌ اِلا بِاِذنِہِ ولا تَاْذَنَ فی بَیتِہِ اِلا بِاِذنِہِ وما اَنفَقَت من نَفَقَۃٍ عَن غَیرِ اَمرِہِ فاِنہ یؤدی اِلِیہ شَطرُہُ”

(صحیح البخاری/حدیث ٥١٩٥/کتاب النکاح / باب ٨٦،)

” عن ابی ھریرۃ قال: قال نبی ﷺ :”ِذا صَلّت المَراَۃُ خَمسھَا ، و صَامَت شَھرھا ، و حَصَّنَت فرجھا ، و اطاعَت بَعلَھا ، دَخلَت مِن ايّ ابواب الجنَّۃِ شاءَ ت”

(صحیح ابن حبان / حدیث ٤١٦٣/کتاب النکاح، صحیح الترغیب و الترھیب (حسن لغیرہ /حدیث ١٩٣١ ،)

“واعلم أن تعلّم العلم یکون فرض عین وھو بقدر ما یحتاج لدینہ، وفرض کفایة وھو ما زاد علیہ لنفع غیرہ ومندوبًا وھو التبحّر في الفقہ أي التوسع فیہ والاطلاع علی غوامضہ وکذا غیرہ من العلوم الشرعیة وآلاتھا․ “

(در مع رد المحتار: ۱/۱۲۶، ط زکریا دیوبند)

طلب العلم فریضة بقدر ما تحتاج الیہ لامر لابد منہ من احکام الوضو والصلٰوة وسائر الشرائع ولامور معاشہ وما وراء ذلک لیس بفرض (فتاویٰ سراجیہ)

(2) موجودہ دور میں ایک نظریہ پروان چڑھ رہا ہے کہ عصری تعلیم تو تعلیمی اداروں سے حاصل کی جائے ،لیکن دینی تعلیم کے لیے کسی ادارے میں جانے کی ضرورت نہیں، یہ انتہائی افسوس ناک سوچ ہے۔اگر قرآن پاک یا دیگر دینی علوم کے حصول کے لیے کسی معلم کی ضروت نہ ہوتی تو حضور پاک ﷺ یہ نہ فرماتے :”انّی بُعثت معلماً”مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔نیز قرآن پاک میں حضرت ابراہیم ؑ کی دعا:{ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ }(البقرۃ/129) اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کتاب اور سنت کے سکھانے کے لیے معلّم کی ضرورت ہوتی ہے اور عصر حاضر میں یہ چیز دینی اداروں سے ہی حاصل ہوسکتی ہے، لہٰذا سوال میں مذکور شخص کی یہ بات ہرگز درست نہیں کہ دینی تعلیم کے لیےکسی ادارے میں جانے کی ضرورت نہیں۔ اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کے لیے گھر بیٹھے دینی تعلیم کا انتظام کرے یا پھر اسے دینی اداروں میں جانے کی اجازت دے۔

(3) دینی علوم کا مطالعہ قابل تحسین بات ہے لیکن مطالعہ کا علم سرسری ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ جو باتیں آسان اور ہر ایک کے لیے قابل فہم ہیں ان پر تو عمل کریں لیکن جو باتیں ان کی سمجھ سے بالا تر ہیں ان کو سمجھنے کے لیے اہل علم سے رجوع ضروری ہے۔ورنہ انسان کے غلط افکار و نظریات میں مبتلاہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔

فقط 

واللہ الموفق

بنت ممتاز غفرھا اللہ 

صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر،کراچی

12 جمادی الثانی،1439ھ/28 فروری،2018ء

اپنا تبصرہ بھیجیں