سود کی رقم فلاحی کاموں میں لگانے کاحکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

درج ذیل مسائل کاشرعی حل مطلوب ہے ۔

۱۔غیراسلامی بینک سےحاصل ہونے والے سود رفاہی کاموں میں صرف کیاجاسکتاہے یانہیں ؟

۲۔زید خودمستحق زکوۃ ہے توکیازید خود کے اکاؤنٹ سےحاصل شدہ  سود کواپنےاستعمال میں لاسکتاہے ؟یادوسرے  فقراء پر تصدیق لازم ہے؟ نیز کیازید اس سودکو اپنی بیوی  یااپنے اصول وفروع پرتصدیق کرسکتاہے؟

۳۔عمرمتشرع شخص ہے اس پرتجارت کرتے کرتے چھ لاکھ روپوں کا قرض ہوگیاہے توقرض خواہ  مطالبہ کرتے رہتےہیں نیز عمر کے دو  شادی شدہ بھائی کی ذمہ داری بھی اسی پر ہے۔ عمر کوکوئی قرضہ حسنہ بھی نہیں مل رہا اور اس کو کوئی زکوٰۃ بھی نہیں دے رہا۔ عمر پریشان حال ہے تو کیا اس صورت میں عمر کوبغیر ضرورت سودی لون لیناجائز ہوگا؟

مفصل جوابات مرحمت فرماکر ماجور ہو

الجواب حامداومصلیاً

  • مذکورہ رقم کے بارے میں اصل حکم یہ ہے کہ یہ رقم اصل مالک کو واپس کردی جائے لیکن عام طور پر اصل  مالک معلوم نہیں ہوتا ،اس لیے یہ رقم ثواب کی نیت کے بغیرا صل مالک یا اصل مالکوں کی طرف صدقہ کرنا ضروری ہے ،اور احتیاط اسی میں ہے ، تاہم اس سلسلہ میں اکابرعلماء کی دورائے ہیں :۔

۱)حرام مال کےمصارف وہی ہیں جو زکوٰۃ  اور دیگرصدقات واجبہ کے ہیں ، جن کا ذکر قرآن میں ہےا ور اس میں تملیک ( کسی کومالک بنانا) بھی شرط  ہے یعنی کسی فقیر ومسکین کو باقاعدہ مالک وقابض بناکردیناضروری ہے کسی رفاہی کام میں لگاناجائز نہیں ۔

۲)حرام مال لقطہ کےحکم میں ہےا ور لقطہ  کےمصارف وہی ہیں جوصدقات نافلہ کےہیں ۔(یعنی رفاہی کاموں مثلاً مساجدکے پیش نظریہ رقم مسجدمیں بہرحال نہ لگائی جائے،کیونکہ یہ رقم ناجائز عقد کےذریعہ حاصل ہوئی ہے ۔( ماخذہ ‘فتاوی عثمانی :۳/۱۲۹تا۱۴۰ والتبویب :۱۷۳۴/۵۷بتصرف)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ۔(۹/۲۴۱)

(وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ) : أَيْ: مُنَزَّهٌ عَنِ النَّقَائِصِ وَالْعُيُوبِ، وَمُتَّصِفٌ بِالْكِمَالَاتِ مِنَ النُّعُوتِ (لَا يَقْبَلُ) : أَيْ: مِنَ الصَّدَقَاتِ وَنَحْوِهَا مِنَ الْأَعْمَالِ (إِلَّا طَيَّبًا) : أَيْ: مُنَزَّهًا عَنِ الْعُيُوبِ الشَّرْعِيَّةِ وَالْأَغْرَاضِ الْفَاسِدَةِ فِي النِّيَّةِ

وفی حاشیة ابن عابدین (ردالمحتار)۔(۵/۹۹)

والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب ردہ علیھم ، وإلا فإن علم عین الحرام لایحل له ویتصدق به بنیة صاحبه ۔

الفتاوی الھندیة(۳/۲۱۲)

فإنه یتصدق بذلک الفضل فی قول إبی حنیفة وأبی یوسف ۔ رحمہما اللہ تعالیٰ۔وإنما طاب للمساکین علی قیاس اللقطة  قال  وھذا الریح لایطیب لھذا لمشتری ، وإن کان فقیرا لأنه یکتسبہ بمعصیۃ ویطیب للمساکین وھوأطیب لھم من اللقطة،

۲۔جب تک حلال مال موجودہواس طرح کا حرام مال استعمال کرنا ہرگز جائزنہیں ۔ا لبتہ اگرحلال مال بالکل بھی موجود نہ ہواور زید کے پاس خرچ کرنےکےلیےاور کوئی مال بھی نہ ہوتواس کےلیے مستحق زکوٰۃ ہونےکی بناء پر یہ حرام رقم بطور صدقہ اپنے استعمال میں لانےکی گنجائش ہے،البتہ سودی لین دین ناجائز اور سخت حرام ہے۔اس لیے اس پر لازم ہے کہ وہ سودی بینک  سے لین دین کےمعاملات یعنی سودی اکاؤنٹ بالکلیہ ختم کرے،ا ور اب تک جوگناہ ہواہے اسی پرصدق دل سے توبہ کرناضروری ہے اور رقم کی حفاظت کےلیےا یسے غیرسودی بینک جومستند علماء کرام  کےز یر نگرانی  شرعی اصولوں کےمطابق کام کررہےہیں ،ا ن میں اکاؤنٹ کھلواسکتا ہے۔ لیکن اگر اس کے پا س خرچہ  کےلیے رقم ہو اور اس کویہ رقم استعمال کرنے کی شدید حاجت  ہوتوپھرا س شرط کے ساتھ استعمال کرنے کی اجازت  ہے کہ جب بعدمیں حلال مال میسر آجائے تو اتنی رقم صدقہ کردے۔اورا گر زید کی بیوی یا اس کے بچے مستحق زکوٰۃ  ہوںتوان پرصدقہ کرنا بھی جائز ہے۔(ماخذہ‘امدادالمفتین :۲/۳۸۶ بتصرف)

فقه البیوع ، ۲/۱۰۴۵

۳)سودی لین دین ناجائز اورسخت حرام ہے،ا س پر قرآن وحدیث میں بہت سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، ایک حدیث میں سود کھانے والےا ور کھلانے والےپر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی  ہے،ا س لیے موجود ھالات میں عمرکےلیے سودی قرض لینا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے ۔اس کے ذمہ لازم ہے کہ وہ صرف حلال ذرائع سے مال  ھاصل کرنے کی کوشش کرے ۔ ( ماخذہ ‘امدادالفتاوی ، ج:۳،ص:۱۴۷ بتصرف والتبویب :۱۵۸۴/۵)

البقرۃ :۲۷۵

وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا 

البقرۃ :۲۷۸)

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

آل عمران

 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

البقرۃ :۱۷۳

إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّـهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ 

صحیح البخاری۔ نسخة طوق ا لنجاۃ (ص:۳۶۰)

حدثنامحمدبن المثنی قال حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ أَبِي، فَقَالَ: «إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ ثَمَنِ الدَّمِ، وَثَمَنِ الكَلْبِ، وَآكِلِ الرِّبَا وَمُوكِلِهِ، وَالوَاشِمَةِ وَالمُسْتَوْشِمَةِ»

واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم

الجواب صحیح

اصغر علی ربّانی

۲۰ ربیع الثانی

الجواب صحیح

بندہ محمود اشرف غفراللہ

مفتی دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

محمدعلی قرغیزی عفی عنہ

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

۱۶،ربیع الثانی ،۱۴۳۷ھ

محمد طاہر غفرلہ

۱۷/۴/۱۴۳۷

اپنا تبصرہ بھیجیں