سود لینے کی نیت سے سودی اکاؤنٹ کھلوانے کا حکم

فتویٰ نمبر:4056

سوال: السلام علیکم محترم و مکرم.:کیا فرماتے ہیں وارثین انبیاء کرام علیہم السلام اس مسئلہ میں کے ایک شخص بینک میں صرف اکاؤنٹ بناتا ہے.کبھی بھی اس میں اپنا ذاتی روپیہ پیسا جمع نہیں کرواتا:اکاؤنٹ بنانے پر اس کو بینک کی طرف سے ایک چیک بک ایک اے ٹی ایم کارڈ اور ماہانہ کچھ رقم اکاؤنٹ میں منتقلی کی صورت میں بینک کی طرف سے دی جاتی ہے.کیا یہ شخص یہ رقم جو بینک نے دی استعمال کر سکتا ہے کیا.کیوں کے وہ خود اکاؤنٹ میں کوئ روپیہ جمع نہیں کرواتا ہے.:اس کا شرعا حکم کیا ہوگا.:تاکہ راہ صواب پر چلا سکے.بارکم اللہ تعالی: ( آفاق احمد شاہ نقشبندی ) فیس بک

تنقیح :اکاؤنٹ اسلامی بینک میں ہے یا کنوینشنل بینک میں؟ نیز دونوں صورتوں میں کونسا اکاؤنٹ ہے ان کا؟

جواب تنقیح :محترم اکاؤنٹ الائیڈ بینک میں ہے جی.اصل صورت یہ ہے حضرت جی کے جو اصل سائل ہے وہ کہتا ہے میں غریب ہوں.اور اکاؤنٹ سو روپے میں بن سکتا ہے.اور اکاؤنٹ بنانے پر بینک کی طرف سے ماہانہ کچھ رقم ملتی ہے.وہ استعمال کرتا رہوں گا.اور خود کچھ بھی جمع نہیں کرواؤں گا.تو وہ ملنے والی رقم حلال ہوگی یا حرام.

والسلام

الجواب حامداو مصليا

بینک” منافع” کے عنوان سے جو کچھ دیتا ہے شرعا وہ سود ہے جو قطعا حرام ہے ،اس کا لینا دینا کھانا کھلانا سب حرام ہے،قرآن وحدیث میں اس کے متعلق سخت سخت وعیدیں آئی ہیں

،ایک حدیث کی رو سے سود خوری کا ادنی درجہ ایسا ہے جیسے اپنی ماں کے ساتھ زنا کرنا ،لہذا مذکورہ حالات میں بھی سود لینا جائز نہیں بلکہ یہاں تو نیت ہی سود لینے کی ہے جو بالکل ناجائز و حرام ہے ۔

لہذا مذکورہ صورت میں بینک سے ملنے والی رقم سائل کے لیے حرام و ناجائز ہے ۔

(احل اللہ البیع وحرم الربوا.”

(سورة البقرة : ٢٧٥)

“یایھا الذین آمنوا اتقوا اللہ ذروا ما بقی من الربوا”

(سورةالبقرة: ٢٧٨)

“یایھا الذین آمنوا لا تاکلوا الربوا اضعافا مضاعفة”(آل عمران : 130 )

“یسئلونک عن الخمر والمیسر ،قل فیھما اثم کبیر ومنافع للناس واثمھما اکبر من نفعھما “(سورةالبقرة:219)

الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ.

(سورة البقرة:275)

“فی الاشباه کل قرض جر نفعا فھو حرام “(الدرالمختار : ٥ /١٦٦)

“کل قرض جر منفعة فھو ربا”(كنز العمال،رقم الحديث:١٥٥١٦, ٦ /٢٣٨)

فتاوی شامی میں ہے:

’’وَإِلَّا تَصَدَّقُوا بِهَا لِأَنَّ سَبِيلَ الْكَسْبِ الْخَبِيثِ التَّصَدُّقُ إذَا تَعَذَّرَ الرَّدُّ علي صاحبه اھ”

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:18رجب 1440ھ

عیسوی تاریخ:26مارچ 2019

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں