سنتوں اور فرائض کے درمیان فصل کرنے کا طریقہ

سوال:سنتوں اور فرائض کے درمیان کتنا فصل کر سکتے ہیں؟

تنقیح سوال: فرائض کے بعد والی سنن میں کتنا فصل کر سکتے ہیں،نیز فجر کی سنتوں کے بعد فصل کی بھی وضاحت کر دیں؟

الجواب حامداً و مصلیا:

دراصل شریعت نے ہر نماز کے ساتھ سنتیں اور نوافل فرائض کی کمی کو پورا کرنے کے لیے رکھے ہیں،لہذا افضل یہی ہے کہ مختصر اذکار کرکے سنتیں شروع کردی جائیں،طویل وظائف اور دعاؤں کا وقفہ سنتوں کے بعد کیا جائے۔

اگر کوئی فرائض کے بعد بلا ضرورت دنیاوی باتوں میں لگ جائے اور سنتوں میں تاخیر کردے تو فقہاء کی تصریح کے مطابق اس سے سنتوں کے ثواب میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔

جہاں تک بات ہے فجر کی سنتوں کی تو فجر کی سنتوں کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کا دو طرح کا معمول منقول ہے، کبھی آپ فجر کی سنتیں ابتدا میں ادا فرماکر کچھ دیر کے لیے آرام فرماتے، اور کبھی پہلے آرام فرماکر پھر سنتیں ادا فرماتے۔تاہم جن روایت میں فجرکی سنتوں کے بعد سونے کا ذکر ہے وہ عام معمول نہیں تھا،اس کی محدثین نے یہ توضیح کی ہے کہ بسا اوقات آپ رات بھر نمازیں پڑھنے کی وجہ سے کچھ دیر آرام فرما لیا کرتے تھے۔

لہٰذا اگر کسی شخص کا رات میں طویل تہجد کا معمول ہو اور وہ بھی اتباعِ سنت کی نیت سے ایسا کرلے تو ثواب کی امید ہے۔

==============

حوالہ جات..

۱…..عن عائشہ رضی اللہ عنہا فی حدیث طویل وفیہ: فإِذَا سَکَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَتَبَيَّنَ لَهُ الْفَجْرُ وَجَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ قَامَ فَرَکَعَ رَکْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَی شِقِّهِ الْأَيْمَنِ حَتَّی يَأْتِيَهُ الْمُؤَذِّنُ لِلْإِقَامَةِ۔

(رواہ الصحیحین)

ترجمہ : پھر جب مؤذن فجر کی اذان دے کر خاموش ہو جاتا اور فجر طلوع ہو جاتی یعنی صبح کی روشنی پھیلنے لگتی تو آپ ﷺ کھڑے ہوتے اور دو رکعتیں ہلکی ( یعنی فجر کی سنتیں) پڑھتے اور اس کے بعد اپنی داہنی کروٹ پر لیٹ جاتے تھے یہاں تک کہ مؤذن اقامت کہنے کی اجازت حاصل کرنے کے لئے آپ ﷺ کے پاس آتا تو آپ ﷺ نماز کے لئے (مسجد) تشریف لے جاتے۔

۲……كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَكَعَ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ.

ترجمہ: حضرت عائشہ ؓسے مروی ہے کہ نبی ﷺ جب صبح ہو جاتی تو دو رکعتیں پڑھتے، پھر دائیں پہلو پر لیٹ جاتے۔

۳…. عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال : إِذَا صَلَّی أَحَدُکُمْ رَکْعَتَيْ الْفَجْرِ فَلْيَضْطَجِعْ عَلَی يَمِينِهِ

(جامع الترمذی)

ترجمہ :رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی فجر کی دوسنتیں پڑھ لے تو دائیں کروٹ پر لیٹ جائے ۔

۴…..”ويكره تأخير السنة إلا بقدر اللهم أنت السلام إلخ. قال الحلواني: لا بأس بالفصل بالأوراد واختاره الكمال. قال الحلبي: إن أريد بالكراهة التنزيهية ارتفع الخلاف قلت: وفي حفظي حمله على القليلة؛ ويستحب أن يستغفر ثلاثاً ويقرأ آية الكرسي والمعوذات ويسبح ويحمد ويكبر ثلاثاً وثلاثين؛ ويهلل تمام المائة ويدعو ويختم بسبحان ربك.”

(فتاوی شامی:ج۲ / ۴۳۱)

۵.. وشرعت البعدیۃ لجبر النقصان والقبلیۃ لقطع طمع الشیطان ایک لیقوم فی الآخرۃ مقام ما ترک منھا لعذر کنسیان۔۔۔۔۔۔۔

(فتاوی شامیہ ج2 / 452)

۶…’’ مطلب یہ ہے کہ: یہ دونوں رکعتیں چوں کہ فرض نماز کے ساتھ مقامِ علیین میں پہنچائی جاتی ہیں؛ اس لیے ان کو فرض نماز کے بعد زیادہ تاخیر کر کے نہ پڑھو ،تاکہ وہ فرشتے جو اعمال کو علیین تک پہنچاتے ہیں منتظر نہ رہیں، اور ظاہر یہ ہے کہ: ان اوارد واذکار کو جنہیں فرض کے بعد جلدی پڑھنا ثابت ہو چکا ہے ان دونوں رکعتوں کے بعد پڑھنا اس تعجیل (جو احادیث میں فرض کے فورًا بعد اور اوراد واذکار کے پڑھنے کے سلسلے میں ثابت ہے) کے منافی نہیں ہے۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ: ان اوراد و اذکار کو ان دونوں رکعتوں کے بعد پڑھنا بعدیت (یعنی حدیث کے اس حکم کہ فرض نماز کے بعد اور اوراد وا ذکار پڑھے جائیں) کے منافی نہیں ہے۔ اس بات کو مزید وضاحت کے ساتھ یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ: پیچھے باب الذکر بعد الصلاۃ میں وہ احادیث گزر چکی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ فرض نماز کے فورًا بعد اوراد و اذکار (جن کی تفصیل ان احادیث میں مذکور ہے) پڑھے جائیں تو اب اگر ان اوراد و اذکار کو فرض نماز کے بعد پڑھنے کے بجائے اس حدیث کی فضیلت کے پیشِ نظر دو رکعت سنتوں کے بعد پڑھا جائے تو احادیث سے ثابت شدہ تعجیل و بعدیت (یعنی اوراد و اذکار کو فرض نماز کے فوراً بعد پڑھنے کا حکم ) کے خلاف نہیں ہوگا‘‘۔

(مظاہرحق : کتاب الصلاۃ)

واللّٰہ اعلم بالصواب۔

11جنوری 2022

7جمادی الثانی 1443

اپنا تبصرہ بھیجیں