سورۃ الاعراف میں سائنسی حقائق کا ذکر

سائنسی حقائق
1۔انسان کی اصل انسان ہی ہے۔ بندر، یا اور کوئی مخلوق نہیں۔ارتقاء انسان کے افکارمیں ہواہے،خود حیات میں نہیں۔دیکھیے تخلیق آدم کی آیات
2۔دل انسان کی تمام اچھی بری صفات کا مرکز ہے ۔قرآن کریم کے مطابق دل ہی وہ چیز ہے جس کےاندر عقل اور فقاہت پائی جاتی ہے۔ دل ہی وہ چیز ہے جوگھٹن اور تنگی محسوس کرتا ہے، کینہ بھی دل ہی محسوس کرتا ہے۔ سکون،ہمدردی،نرمی، ڈروخوف، راز چھپانا،تکبر، رعب، ضد اور کجی، غصہ اور ضرورت یہ سب وہ صفات ہیں جن کا مرکز دل ہے۔دماغ کی حیثیت صرف ایک ملازم کی ہے جو چیزیں دل تک بھیجتا ہے۔فیصلہ تو دل ہی کرتا ہے۔ {فَلَا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ } [الأعراف: 2] { وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ} [الأعراف: 43] {لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا}
3۔ہم سے پہلے دنیا میں ایسی کئی تہذیبیں گزری ہیں جو اب دنیا میں موجود نہیں ہیں۔ان پر ان کے گناہوں کی پاداش میں عذاب آیا اور ان کا وجود دنیا سے ختم ہوگیا۔قوم نوح ،عاد وثمود ، قوم لوط ،قوم سبا،قوم تبع اور بہت سے پرانی تہذیبوں سے قرآن نے پردہ اٹھایا ہےجن پر اسی دنیا میں قہر الہی برسا۔ [الأعراف: 4، 5]
4۔آج سائنس اتنی ترقی کرچکی ہے کہ زلزلے کی پیمائش کرلی جاتی ہے۔گرمی سردی کی پیمائش کرلی جاتی ہے۔بخارکو ناپا تولا جاتا ہے۔حالانکہ یہ چیزیں ایسی ہیں جنہیں محسوس تو کیا جاسکتا ہے،لیکن دیکھا نہیں جاسکتا۔قرآن کریم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ ممکن ہے ۔قرآن کہتاہے کہ انسا ن اچھے برے جو بھی عمل کرتا ہے اس کا ہمارے ہاں وزن ہوتا ہے۔ہمارے ہاں اخلاص کا وزن ہے۔نیتوں کا وزن ہوتا ہے۔قیامت میں اعمال اور اخلاص ہی کے وزن پر انسانوں کی کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ ہوگا۔(الاعراف :8،9)
( از گلدستہ قرآن)

اپنا تبصرہ بھیجیں