طلاق کو دینی کلاسیں لینے پر معلق کرنے کا حکم

سوال:میاں بیوی کی کسی بات پر لڑائی ہورہی تھی شوہر نے بیوی سے کہا اگر تم نے اب دینی کلاسیں لی تو میری طرف سے فارغ ہو۔ بیوی عالمہ کورس کر رہی تھی۔
١۔اب اگر بیوی کلاسیں لیتی ہے تو طلاق بائن پڑجائے گی یا نہیں؟
٢۔کیا اب بیوی پوری زندگی دینی کلاسیں نہیں لے سکے گی؟
٣۔اگر عالمہ کورس کو چھوڑ کر کوئی اور کلاسیں لے جیسے کوئی تفسیر یا تجوید کی کلاس تو کیا اس پر بھی یہ لاگو ہوگا۔
٤۔اگر شوہر دینی کلاسیں لینے کی اجازت دیں تب اگر بیوی کلاسیں لیتی ہے تو اس condition میں طلاق بائن پڑجائے گی یا نہیں؟
٥۔اگر اس بات کی وجہ سے بیوی دینی کلاسیں لینا چھوڑ دیتی ہے تو اس کا وبال شوہر پر ہوگا یعنی شوہر گنہگار ہوگا؟
٦۔اگر کوئی اور دینی کلاسیں لے رہا ہے اس کے ساتھ بیٹھ کر سننے سے یہ لاگو ہوگا یا نہیں؟
٧۔اگر بیوی تجدید نکاح کرنا چاہے اور شوہر نہیں مان رہا تو اس condition میں کیا کرنا چاہیے؟

الجواب باسم ملھم الصواب

١۔ واضح رہے کہ اگر شوہر اپنی بیوی کی طلاق کو کسی شرط کے ساتھ معلق کردے تو اس چیز کے پائے جانے کی وجہ سے طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ مذکورہ صورت میں چونکہ بیوی کے دینی علم حاصل کرنے پر طلاق کو معلق کیا ہے، اس لیے اگر بیوی کسی بھی ذریعہ سے دینی کلاس لے گی تو اس پر ایک طلاق بائن پڑ جائے گی۔
٢۔ جب ایک دفعہ طلاق پڑجائے پھر اس کے بعد نئے سرے سے نیا نکاح کرنا ہوگا، اس کے بعد پھر اگر بیوی دینی علم حاصل کرے پھر اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
٣۔شوہر نے طلاق کو دینی علم حاصل کرنے پر معلق کیا ہے،لہذا تفسیر یا تجوید کی کلاس لینے پر بھی طلاق پڑ جائے گی۔
٤۔ طلاق کو ایک مرتبہ معلق کردینے کے بعد اسے ختم نہیں کیا جاسکتا، لہذا شوہر کی اجازت کے باوجود دینی کلاسیں لینے پر طلاق بائن پڑ جائے گی۔
٥۔اگر عورت ان ضروری مسائل کو سیکھنے کے لیے دینی کلاسیں لینا چاہتی تھی جن مسائل کی تعلیم گھر میں کوئی محرم بھی نہیں دے سکتا تھا تو اس صورت میں دینی تعلیم حاصل نہ کرنے کا وبال شوہر پر ہوگا۔ بصورت دیگر شوہر کی اتباع عورت پر لازم ہے،یعنی اگر وہ ضروری معاملات یا فرض عین علوم حاصل کر چکی ہے تو شوہر کی اجازت کے بغیر جانا جائز نہیں۔
٦۔کسی اور کے دینی کلاس لینے کی صورت میں بیوی کا اتفاقاً سماع کرلینا اور باقاعدہ کلاس لینے کےلیے نہ بیٹھنا یہ کلاس لینے کے حکم میں نہیں ہوگا۔
٧۔ شوہر کی رضا مندی کے بغیر تجدید نکاح نہیں ہوسکتا،لہذا بیوی اگر اسے نکاح کرنا چاہتی ہے تو اسے راضی کرے اس کے بعد ہی نکاح ہوسکے گا۔
_______

دلائل

1۔اذا اضافہ الی الشرط وقع عقیب الشرط اتفاقاً مثل ان یقول ان دخلت الدار فانت طالق۔

(عالمگیری کشوری:97/2)

2۔وفیھا کلھا تنحل ای تبطل الیمین ببطلان التعلیق اذا وجد الشرط مرہ الخ

(الدرالمختار علی ھامش رد المحتار: باب التعلیق،688/2)

3۔واعلم ان تعلّم العلم یکون فرض عین وھو بقدر ما یحتاج لدینہ، وفرض کفایة وھو ما زاد علیہ لنفع غیرہ ومندوبًا وھو التبحّر في الفقہ اي التوسع فیہ والاطلاع علی غوامضہ وکذا غیرہ من العلوم الشرعیة وآلاتھا“۔

(در مع رد المحتار:126/1، ط زکریا دیوبند)

4۔شرط پر طلاق کو معلق کر دینے کے بعد شرط کے واپس لینے کا حق نہیں رہتا۔

( فتاوی محمودیہ:125/13)

فقط واللہ اعلم

6جون 2023ء
17ذوالقعدہ 1444ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں