تحقیق حدیث

سوال: من سئل عن علم ثم کتمہ الجم یوم القیامة بلجام من نار.

کیا اس حدیث کی وعید میں وہ شخص بھی داخل ہوگا جسے سلائی یا کھانا پکانا وغیرہ اچھا آتا ہو۔ لیکن کوئی اس سے اس بارے میں پوچھا جائے تو وہ ٹال مٹول کردے اور صحیح طریقہ نہ بتائے؟

الجواب باسم ملھم الصواب

مذکورہ حدیث میں علم سے مراد دین کے وہ ضروری علم ہیں جن کا سیکھنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے اور وہ نافع علم بھی اس میں شامل ہیں جن کا سکھانے والا اس وقت اور کوئی نا ہو۔ باقی سلائی اور کھانا پکانا نہ سیکھانا اس وعید کے زمرے میں شامل نہیں،تاہم تجربہ شاہد ہے کہ جو جتنا لوگوں کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کرتا ہے،اللہ تعالیٰ اس کے لیے راستے کھولتے چلے جاتے ہیں،لہذا کنجوسی سے کام نہ لیں بلکہ لوگوں کے ساتھ بھلائی کریں،اللہ تعالی آپ کے ساتھ بھی بھلائی فرمائیں گے۔

_________________

حوالہ جات :

1: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَهُ ثُمَّ كَتَمَهُ أُلْجِمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ
(ترمذی شریف 2649)

ترجمہ
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس سے علم دین کی کوئی ایسی بات پوچھی جائے جسے وہ جانتا ہے، پھر وہ اسے چھپائے تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی“

2 : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ فَكَتَمَهُ أَلْجَمَهُ اللَّهُ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ .
(ابو داؤد 3658)

ترجمہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس سے علم کی بات پوچھی گئی اور اس نے اسے چھپا لیا ( اور بتایا نہیں ) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اسے آگ کی لگام دے گا ۔‘‘

3: وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «من سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَهُ ثُمَّ كَتَمَهُ أُلْجِمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ

(المصابیح 223)
ترجمہ

حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص سے علم کی کوئی بات پوچھی جائے ، جسے وہ جانتا ہو ، پھر وہ اسے چھپائے تو روز قیامت اسے آگ کی لگام ڈالی جائے گی

4 : قوله : ( من سئل عن علم علمه ) وهو علم يحتاج إليه السائل في أمر دينه(ثم کتمه ) بعدم الجواب أو بمنع الكتاب٠

(تحفةالاحوذي بشرح ترمذي : 7/408)

5: قوله: (عن علمٍ) في رواية الترمذي: «عن عِلْمٍ عَلِمه»، وهو مراد معنى وكأنه اكتفى عنه بالكتمان؛ إذ لا يوصف بالكتمان إلا فيما عنده، ثم لعل هذا مخصوص بما إذا كان السائل أهلاً لذلك العلم، ويكون العلم نافعاً.
وقال الخطابي : هو في العلم اللازم، لا في نوافل العلم التي لا ضرورة بالناس إلى معرفتها

(فتح الودود :5/438)

6 : من سئل عن علم علمه وهو علم يحتاج إليه السائل في أمر دينه (ثم كتمه) بعدم الجواب أو بمنع الكتاب (الجم) أي أدخل في فمه لجام، لأنه موضع خروج العلم والكلام٠

(مرقاة المفاتيح : 1/437)

7 : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس شخص سے کوئی دینی بات پوچھی گئی اور اسے وہ بات معلوم ہے لیکن پھر بھی وہ پوچھنے والے کو نہیں بتاتا تو اسے قیامت کے دن یہ سزا ہوگی کہ اسکے منھ میں آگ کے لگام داخل کی جائگی کیوں کہ اس منھ سے اسنے جواب نہیں دیا تو اب اسے میں اسے سزا دی جائگی علم سےدین کی ایسی بات مراد ہے جس کی تعلیم ضروری اور لازم ہو –

(معارف الترمذی :2/494)

8 : جو شخص دین کا عالم ہے اسکو چاہئے کہ وہ دوسروں کو سکھائے اگر لوگ اس سے فیض نہیں حاصل کر پا رہے ہیں تو صاحب علم کو سمجھنا چاھئے کہ اسکا علم نفع بخش نہیں ہے اگر کسی عالم سے کوئی دینی بات پوچھی گئی اور اسنے جاننے کے باوجود لوگوں کو مطلع نہیں کیا تو ایسے شخص کے بارے میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ من سئل عن……الخ

(شرح ابي داؤد كتاب العلم : 7/230 )

9: از مترجم : مراد اس سے بقول علما علم ضروری ہے اور چھپانا اس کا ایسے وقت میں کہ دوسرا کوئی بتانے والا نہ ہو اور کوئی مانع صحیح بھی نہ ہو بلکہ نا بتانا فقط براہ بخل ہو زیادہ برا ہے –

(جامع ترمذی: 2/205)

واللہ اعلم بالصواب
27 دسمبر 2022
3 جمادی الثانی 1444

اپنا تبصرہ بھیجیں