وراثت کی تقسیم کا کیا حکم ہے؟

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!

السلام علیکم و رحمۃ الله و بركاته!

مجھے ایک خاتون کا مسئلہ معلوم کرنا تھا

کہ اُن کی والدہ کا انتقال ہو گیا ہے اور ان کی وراثت یعنی بینک میں چند لاکھ روپے رکھے ہوۓ ہیں اب ان کی وفات کے بعد ان کی دونوں بیٹیوں کو یہ پیسے مل رہے ہیں۔خاتون کی صرف دو بیٹیاں ہیں۔اُن کی شوہر سے علحیدگی ہو چکی ہے اور جو وراثت کے پیسے ہیں وہ ان کے ابو کی آفس کی طرف سے ان کو ملے تھے جو بیٹیوں نے اپنی والدہ کو دے دیے تھے اور دونوں بیٹیوں کی شادی ہو گئی ہے اب والدہ کی وفات کے بعد یہ پیسے دونوں بیٹیوں کو مل رہے ہیں۔ والدہ کے بینک سے جو قومی بچت بینک ہے اب وہ پیسے بینک سے نکلوانے جا رہے ہیں اور اس میں بینک والے کہہ رہے ہیںکہ آپ کی والدہ کے بہن بھائیوں کو بھی اس میں سے پیسے ملے گے اب آپ یہ بتا دیں کہ ان بیٹیوں کی والدہ کے بہن بھائیوں کو حصہ دینا چاہئیے یا نہیں؟ اور ان کے بہن بھائی پیسے لینے کے لیے راضی نہیں ہیں۔تو میری رہنمائی کردیں اس سلسلے میں شریعت کیا حکم دیتی ہے؟

تنقیح : کیا ان پیسوں میں سود کی رقم شامل ہے؟

جواب تنقیح:سود میں صرف ایک لاکھ کا نفع ہے باقی ابو کے انتقال کے بعد ہم بیٹیوں کو فنڈ ملے تھے۔

الجواب باسم ملھم الصواب

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

مذکورہ صورت میں مرحومہ نے انتقال کے وقت اپنی ملكیت میں جو كچھ منقولہ غیرمنقولہ مال و جائیداد، دكان مكان، نقدی ،سونا، چاندی غرض ہر قسم كا چھوٹا بڑا جو بھی سازوسامان چھوڑا ہے، وہ سب مرحومہ كا تركہ ہے۔

1⃣ اس میں سے سب سے پہلے مرحومہ كے كفن دفن كا متوسط خرچہ نكالا جائے، اگر كسی نے یہ خرچہ بطور احسان ادا كردیا ہے تو پھر تركے سے نكالنے كی ضرورت نہیں۔

2⃣ اُس كے بعد دیكھیں اگر مرحومہ كے ذمے كسی كا كوئی قرض واجب الادا ہوتو اُس كو ادا كیا جائے گا۔

3⃣ اُس كے بعد دیكھیں اگر مرحومہ نے كسی غیر وارث كے حق میں كوئی جائز وصیت كی ہو توبقایا تركے كے ایک تہائی حصے كی حد تک اُس پر عمل كیا جائے۔

4️⃣ صورت مسئولہ میں شرعی اعتبار والدہ کے بھائی بہنوں کا بھی وراثت میں حصہ بنتا ہے،اب چونکہ وہ حصہ نہیں لینا چاہتے تو اس کا شرعی اصول یہ ہے کہ پہلے جائیداد کی تقسیم ہو اور ہر وارث کو اس کاحصہ دے دیا جائے،پھر جو وارث اپنا کل یا بعض حصہ دینا کسی کو دینا چاہے تو وہ دے سکتا ہے۔

تقسیم اور قبضہ سے پہلے قابل تقسیم ترکہ میں ہبہ(گفٹ) درست نہیں۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

سب سے پہلے سود کی رقم الگ کرکے اُسے صدقہ کر دیں۔

اُس كے بعد جو تركہ بچے گا اُس کے 15 حصے کیے جائیں گے , جس میں سے

فی بیٹی 5

فی بہن 1 اور

بھائی کو 2

حصے ملیں گے۔

🔵فی صد کے لحاظ سے:

🔹بیٹیوں کو %66.66 یعنی فی بیٹی کو % 33.33ملے گا۔

🔹بھائی بہنوں کو %33.33

دیا جائے گا۔ اس میں سے ہر بہن کو % 6.66اوربھائی کو % 13.33 ملے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

1-وھبة حصتہ من العین لوارث أو لغیرہ تصح فیما لا یحتمل القسمة، ولا تصح فیما یحتملھا قنیة فی باب ھبة الدین من کتاب الھبة. (واقعات المفتین، ص: 110، ط: مصر)،

2-وشرائط صحتھا فی الموھوب أن یکون مقبوضاً غیر مشاع الخ (االدر المختار مع رد المحتار، کتاب الھبة، : 489:8، ط: مکتبة زکری دیوبند)،

3-وتتم الھبة بالقبض الکامل…… (في) متعلق ب ”تتم“ (محوز) مفرغ (مقسوم)ومشاع لا) یبقی منتفعاً بہ بعد أن (یقسم) کبیت وحمام صغیرین لأنھا (لا) تتم بالقبض (فیما یقسم الخ) ولو وھبہ لشریکہ أو لأجنبي لعدم تصور القبض الکامل کما في عامة الکتب فکان ھو المذھب (المصدر السابق،ص: 495,493)

4-وھب اثنان دارا لواحد صح لعدم الشیوع، وبقلبہ لکبیرین لا عندہ للشیوع فیما یحتمل القسمة (المصدر السابق،ص:502)

5-وکما یکون للواھب الرجوع فیھا – أي: فی الھبة الفاسدة – یکون لوارثہ بعد موتہ؛ لکونھا مستحقة الرد (رد المحتار، 496:8)

6۔فتاوی شامی میں ہے:

لو مات الرجل وكسبه من بيع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوة يتورع الورثة، ولا يأخذون منه شيئا وهو أولى بهم ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها لأن سبيل ‌الكسب ‌الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه۔

( کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ ، فصل فی البیع ،9/553/ سعید)

فقط

واللہ اعلم بالصواب

29 ربیع الثانی 1443ھ

5دسمبر 2021 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں