بیماری کی وجہ سے غسل کے بجائے تیمم کرنے کا حکم

سوال:السلام وعلیکم ورحمة الله وبركاته!

کسی خاتون کو حالت حيض میں کرونا ہوگیا، اب وہ غسل حيض کرنا چاہتی ہیں. لیکن بیماری کی وجہ سے انہیں غسل سے منع کیا گیا ہے، تو اب وہ اپنی نماز کس طرح ادا کریں؟

برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں، آج سے انہیں نماز شروع کر نی ہے۔

الجواب باسم ملھم الصواب

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

واضح رہے کہ اگر کوئی خاتون ایسی بیماری میں مبتلا ہو کہ جس کے ساتھ غسل کرنا سخت نقصان کا باعث ہو، مثلا: ہلاکت کا خوف ہو یا مرض کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو یا دیر سے شفایاب ہونے کا اندیشہ ہو تو غسل فرض ہونے کی صورت میں وہ غسل کے بجائے تیمم کرکے نماز پڑھ سکتی ہے۔

صورت مسئولہ میں اگر بیماری کی وجہ سے مسلمان ماہر ڈاکٹر نے غسل سے منع کیا ہے تو حیض سے پاکی کی صورت میں غسل کے بجائے تیمم کرکے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:

1۔ “وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآىٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ مِّنْهُ”.

( سورة النساء: 43)

ترجمہ:

“اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں کا کوئی پاخانہ سے آیا یا عورتوں سے مباشرت کی (جِماع کیا) اور پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی کا قصد کرو تو اپنے منہ اور ہاتھوں کا اس سے مسح کرو”۔

2۔ “(من عجز)…(عن استعمال الماء) المطلق الکافی لطهارته لصلاة تفوت إلی خلف (لبعدہ)….(أو لمرض) یشتد أو یمتد بغلبة ظن أو قول حاذق مسلم ولوبتحرك ، أولم یجد من توضئه….(أو برد) یهلك الجنب أو یمرضه ولو فی المصر إذا لم تکن له أجرة حمام ولا ما یدفئه….(تیمم) لہذہ الأعذار کلہا”.

(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار)،باب التیمم: 395/1)

3۔ “وإذا خاف المحدث إن توضأ أن يقتله البرد أو يمرضه يتيمم، هكذا في الكافي. واختاره في الأسرار. لكن الأصح عدم جوازه إجماعاً، كذا في النهر الفائق. والصحيح أنه لايباح له التيمم، كذا في الخلاصة وفتاوى قاضي خان.

ولو كان يجد الماء إلا أنه مريض يخاف إن استعمل الماء اشتد مرضه أو أبطأ برؤه يتيمم”.

(الفتاوى الهندية:1/ 28)

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

9جمادى الثانية1443ہ

13 جنوری 2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں