حرمت مصاہرت

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:123

مکرمی  ومحترمی  حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !

حرمت مصاہرت  کی بعض صورتوں میں فقہ حنفی  کے مطابق پیش آنے والی مشکلات  کے تناظر میں حضرت مولانا محمد زاہد  صاحب  زید مجدہم  ( نائب مہتمم : جامعہ امدادیہ  ، فیصل آباد ) کے ایک تفصیلی  مضمون کی تلخیص کرکے علمی  وتحقیقی  سلسلہ نمبر  11 میں اشاعت  کی گئی تھی  ، جس پر متعدد اہل  علم حضرات  کی آراء موصول ہوئی  تھیں، جن کو رسالہ میں  شامل کرلیاگیاتھا ۔

 اب کی مرتبہ  اشاعت سے پہلے  مناسب  معلوم ہوا کہ ا س اہم مسئلہ میں آنجناب  کی رائے مبارک  سے بھی  استفادہ کیاجائے  ۔

اس غرض  سے یہ مضمون  آنجناب  کی خدمت میں مرسل ہے ۔

 امید ہے کہ اپنی رائے   عالی سے آگاہ   فرمائیں گے  ۔

جزاکم اللہ اللہ تعالیٰ خیرالجزاء

7/ ذیقعدہ /1431ھ  16/اکتوبر  /2010 ء بروز ہفتہ  

ادارہ غفران  ، چاہ سلطان  ، گلی نمبر  17، راوالپنڈی  ، پاکستان

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 مکرمی جناب  مولانا مفتی  محمد رضوان صاحب  ۔

السلام  علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ  

 آپ کے متعدد   رسائل ومقالات  بندہ کے پاس اظہار  رائے کے لیے جمع  ہوگئے تھے ۔ لیکن  مشاغل کے ہجوم  اور  علالت واسفار کی بناء پر انہیں اطمینان سے دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔ ان  میں سے  ” تضحیہ عن الخیر  ”  کے بارے میں پہلے لکھ چکا ہوں ، آج  ” حرمت مصاہرت  ” کے   موضوع  پر آپ کا رسالہ دیکھنے  کی نوبت  آئی ۔ا س کے بارے میں عرض  یہ ہے کہ مندرجہ ذیل  امور سے  بندہ کو اتفاق ہے ۔

  • مسئلہ مجتہد فیھا ہے  ۔
  • دلائل دونوں جانب ہیں ،ا ور حنفیہ  کا مسلک احوط ہے  ۔
  • خاص طور پر دواعی  بعد النکاح  کی بععض  صورتوں میں خاندن بھر کے لیے  شدید مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں ۔

 لیکن اس  بنیاد  پر  عدم  حرمت  کا عام فتویٰ دینے  کی  ابھی   تک ہمت  نہیں ہوتی  ، الا یہ کہ اہل افتاء  کی ایک بڑی جماعت  اس پر متفق  ہوجائے  جیسا کہ مفقود   وغیرہ کے مسئلے میں  متفق ہوئی تھی ۔آپ  نےاچھا کیا کہ  دوسرے مفتی  حضرات  سے ان کی آراء  معلوم کیں لیکن  جن حضرات  نے حرمت ہی کو فتوے  پر قائم رکھنے  کو کہا ہے ان کے  نام مذکور نہٰں  ہیں ، کیونکہ  معاملہ  حرمت وحلت  نساءکا  ہے  ، لہذا فی الحال تو بندہ  کی سمجھ میں  یہی آرہاہے کہ عام فتویٰ  دینے کے بجائے  جہاںمفتی  کسی خاص واقعے  میں یہ دیکھے  کہ حرمت   پر فتویٰ دینے کے مفاسد  وفتن  مذہب   غیرا ختیار  کرنے سے زیادہ  ہیں ، وہاں  مذہب غیر پر عمل کا مشورہ دے دے ،ا ور وہ بھی  زبانی  طور پر   جب کہ علامہ ابن عابدین ؒ  نے  ایسے موقع پر  مرجوح قول  پر عمل  کرنے کا ذکر  فرمایاہے ۔ لیکن  عام فتویٰ  دینے میں ایک تو  حد مفاسد معلوم ہوتے ہیں  جن کا ذکر  بعض مفتی  حضرات  نے فرمایا ہے  دوسرے علماء  میں اس مسئلے  پرا تفاق پیدا کیے  بغیر  ایسا کرنے  میں ایک نیا انتشار  پیدا ہونے کا اندیشہ  ہے ، ھذا ماظھر  لی واللہ سبحانہ وتعالیٰ  اعلم

والسلام

الجواب  مفتی تقی عثمانی صاحب

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

 پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنے کے لیے لنک پرکلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/560651807637402/

اپنا تبصرہ بھیجیں