سات تولہ سے کم سونے پر زکوۃ کا حکم

سوال:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اگر کسی کے پاس ساڑھے سات تولہ سے کم سونا ہو اور اس پر سال گزر جائے تو کیا اس پر زکوۃ ہوگی؟

اور اس کے پاس سونے کے علاوہ 8،9 لاکھ کیش بھی موجود ہو لیکن سونا ساڑھے سات تولے سے کم ہو تو کیا سونا اور کیش کو ملاکر زکوٰۃ نکالی جائے گی یا سونے پر زکوۃ نہیں ہوگی؟اور اگر سونے پر زکوۃ ہے تو کس تناسب سے واجب ہوگا؟

پلیز رہنمائی فرما دیں جزاک اللہ خیر۔

الجواب باسم ملھم الصواب 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اگر کسی شخص کے پاس چار قسم کے اموال (سونا سونا ،چاندی ،اور مال تجارت) میں سے بعض کا یا سب کا مجموعہ اتنا ہو کہ وہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچ جائے تو سال پورا ہونے پر اس کے اوپر زکوۃ واجب ہوگی۔

جہاں تک ساڑھے سات تولے سونے کے نصاب ہونے کا تعلق ہے اور جیسا کہ عوام میں یہ بات رائج ہے کہ ساڑھے سات تولے سونا ہوگا تو زکوٰۃ واجب ہوگی ،اس سے کم میں زکوٰۃ کو واجب نہیں سمجھتے ۔تو یہ اس صورت میں ہے جب کہ کسی کی ملک میں صرف سونا ہو ،اس کے ساتھ باقی تین قسم کے اموال میں سے اور کوئی مال نہ ہو تو جب ساڑھے سات تولہ سونا پورا ہوگا تو زکوٰۃ واجب ہو گی اگر ساڑھے سات تولے سے کم ہوا تو زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی۔(تاہم آج کل یہ صورت شاذ و نادر ہی ہے کہ کسی کے پاس صرف سونا ہو سونے کے علاوہ کچھ بھی نقدی نہ ہو)

مذکورہ صورت میں اگر چہ سائلہ کے پاس موجود سونا ساڑھے سات تولہ سے کم ہی ہے لیکن پھر بھی زکوٰۃ واجب ہوگی کیونکہ اس سونے کے ساتھ 8،9 لاکھ نقدی بھی ہے تو ایسی صورت میں سونے اور نقدی کو ملا کر ایک نصاب شمار کیا جائے گا ،یعنی جب سونے اور نقدی کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کو پہنچ جائے( اور یقینا یہاں پر پہنچ رہی ہے) تو سال گزرنے پر 2.5% کی شرح سے زکوۃ واجب ہوگی۔

==================

🔹 ومنهاکون النصاب نامیا حقیقة أوتقدیراً، وینقسم کل منہا إلی خلقي وفعلي، فالخلقي الذہب والفضة، فتجب الزکوۃ فیہما نوی التجارۃ أولم ینوأصلا، والفعلي ما سواہ، ویکون الاستنماء فیہ بنیة التجارۃ أو الإسامة، ونیة التجارۃ والإسامة لا تعتبرمالم تتصل بفعل التجارۃ أوالإسامة …‘‘ (هنديه:۱/۱۷۴)

🔹قال فى البدائع: أماالأثمان المطلقةوهى الذهب والفضةفإن كان له فضة مفردة فلا زكاة فيها حتى تبلغ مائتي درهم وزناوزن سبعة. وإذا كان له ذهب مفردفلاشیئ فيه حتى يبلغ عشرين مثقالا (بدائع:٢/١٦,١٨)

🔹ولو ضم أحدهما الى الآخر حتى يودى كله من الفضة أو من الذهب فلا بأس به عندناولكن يحب أن يكون التقويم بما هو أنفع للفقراءرواجا.(بدائع:٢/٢٠)

🔹 إذا کان له الصنفان جمیعاً، فإن لم یکن کل واحد منهما نصابا بأن کان له عشرۃ مثاقیل ومائۃ درہم، فإنه یضم أحدهما إلی الآخر فى حق تکمیل النصاب۔‘‘ (بدائع: ٢/١٩)

فقط-واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب

قمری تاریخ:٢٥,ربيع الثانى،١٤٤٢ه‍

شمسی تاریخ: 11 دسمبر،2020

اپنا تبصرہ بھیجیں