عشرہ مبشرہ کا تفصیلی تعارف : تیسری قسط

عشرہ مبشرہ کا تفصیلی تعارف : تیسری قسط

حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے مناقب چنداحادیث کی روشنی میں

1-رسول اللہﷺنے ارشادفرمایا:

(مَا لِأحَدٍ عِندَنَا یَدٌ اِلَّا وَقَد کَافَینَاہُ ، مَا خَلَا أبَابَکرٍ ، فَاِنَّ لَہٗ عَندَنَا یَداً یُکَافِئِہُ اللَّہُ بَہٖ یَومَ القِیَامَۃِ، وَمَا نَفَعَنِي مَالُ أحَدٍ قَطُّ مَا نَفَعَنِي مَالُ أبِي بَکر، وَ لَوکُنتُ مُتَّخِذاً خَلِیلاً لَاتَّخَذتُ أبَا بَکرٍ خَلِیلاً ، ألَا وَاِنَّ صَاحِبَکُم خَلِیلُ اللّہ)(ترمذی)

ترجمہ:ہم نے ہرایک کے احسان کابدلہ چکادیاہے،البتہ ابوبکرکے احسانات ایسے ہیں کہ جن کابدلہ انہیں خوداللہ ہی روزِقیامت عطاء فرمائے گا، کسی بھی شخص کامال میرے اس قدرکام نہیں آیا جس قدرابوبکرکے مال سے مجھے فائدہ پہنچاہے،اگرمیں کسی کواپنا’’خاص دوست‘‘بناتا ٗتویقیناابوبکرہی کوبناتا،لیکن بات یہ ہے کہ تمہارایہ ساتھی [یعنی خودرسول اللہﷺ]توبس صرف اللہ ہی کا’’خاص دوست‘‘ہے)

2- رسول اللہﷺنے ارشادفرمایا:

مَاعَرَضْتُ الاِسلَامَ عَلَیٰ أحَدٍ اِلَّا کَانَت لَہٗ کَبْوَۃٌ ، اِلّا أبُو بَکرٍ ، فَاِنَّہٗ لَم یَتَلَعْثَم فِي قَولِہٖ(جامع الاصول)

ترجمہ:میں نے جس کسی کوبھی دینِ اسلام کی طرف دعوت دی ، اس نے ابتداء میں کچھ ترددکااظہارکیا،سوائے ابوبکرکے جنہوں نے اس موقع پرقطعاً کسی ترددکااظہارنہیں کیا۔

3-عن أبي ھریرۃ رضي اللّہُ عنہ قال: قَالَ رَسُولُ اللّہِ ﷺ : مَن أصْبَحَ مِنکُمُ الیَومَ صَائِماً؟ قَالَ أبوبکر: أنَا ، قَالَ: فَمَن تَبِعَ مِنکُمُ الیَومَ جَنَازۃً؟ قَالَ أبوبکر: أنَا ، قَالَ: فَمَن أطْعَمَ مِنکُمُ الیَومَ مِسْکِیناً؟ قَالَ أبوبکر: أنَا ، قَالَ: فَمَن عَادَ مِنکُمُ الیَومَ مَرِیضاً؟ قَالَ أبوبکر: أنَا ، فَقَالَ رَسُولُ اللّہِ ﷺ : مَا اجْتَمَعنَ فِي امْرِیٍٔ اِلَّا دَخَلَ الجَنَّۃَ ۔ (مسلم)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے ایک باراپنے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے دریافت فرمایا: ’’آج تم میں سے روزہ کس نے رکھاہے؟‘‘ ابوبکررضی اللہ عنہ نے عرض کیا : ’’اے اللہ کے رسول!میں نے‘‘ ۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا: ’’تم میں سے کس نے آج جنازے میں شرکت کی ہے؟‘‘ ابوبکرؓنے عرض کیا : ’’اے اللہ کے رسول!میں نے‘‘ ۔آپ ﷺنے دریافت فرمایا: ’’تم میں سے کس نے آج مسکین کوکھاناکھلایاہے؟‘‘ابوبکرؓنے عرض کیا : ’’اے اللہ کے رسول! میں نے‘‘ ۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: ’’تم میں سے کس نے آج بیمارکی عیادت کی ہے؟‘‘ابوبکرؓنے عرض کیا : ’’اے اللہ کے رسول!میں نے‘‘۔ اس پرآپ ﷺنے فرمایا:’’ جس شخص میں یہ تمام خوبیاں جمع ہوگئی وہ ضرورجنت میں داخل ہوجائے گا‘‘۔

4-حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے ارشادفرمایا:اِنَّ مِن أَمَنِّ النَّاسِ عَلَيَّ فِي صُحْبَتِہٖ وَ مَالِہٖ أبُوبَکر(بخاری)

ترجمہ:لوگوں میں سب سے زیادہ جس شخص کی صحبت کونیزاس کے مال کومیں اپنے لئے باعثِ اطمینان تصورکرتاہوں وہ ابوبکرہیں‘‘۔

5-حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک باررسول اللہﷺنے ارشادفرمایا:

اِنَّ اللّہَ بَعَثَنِي اِلَیکُم فَقُلتُم : کَذَبْتَ ، وَقَالَ أبُوبَکر: صَدَقْتَ(بخاری)ترجمہ:اللہ نے مجھے تم لوگوں کی جانب مبعوث فرمایا، تم لوگوں نے مجھے جھٹلایا،جبکہ ابوبکرنے میری تصدیق کی۔

6-حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

أَمَرَنَا رَسُولُ اللّہِﷺ أن نَتَصَدَّقَ ، وَوَافَقَ ذَلِکَ عِندِي مَالاً ، فَقُلتُ: الیَومَ أسبِقُ أبَابَکرٍ ان سَبَقتُہٗ یَوماً ، فَجِِئتُ بِنِصفِ مَالِي، فَقَالَ رَسُولُ اللّہِﷺ : مَا أبقَیتَ لِأھلِکَ؟ قُلتُ : مِثلَہٗ ، وَ أتَیٰ أبُوبَکرٍ بِکُلِّ مَا عِندَہٗ ، فَقَالَ رَسُولُ اللّہِﷺ : یَا أبَا بَکر مَا أبقَیتَ لِأھلِکَ؟ قَالَ : أبقَیتُ لَھُمُ اللّہَ وَ رَسُولَہ ، قُلتُ : لَا أسبِقُہٗ اِلَیٰ شَیٍٔ أبَداً) (ترمذی)

ترجمہ:ایک باررسول اللہﷺ نے ہمیں صدقہ دینے کاحکم دیا، اتفاق سے اُس وقت مجھے کچھ مال میسرتھا،لہٰذامیں سوچنے لگاکہ آج تومیں ابوبکر پر سبقت لے جاؤں گا،یہی سوچ کرمیں اپناآدھامال لئے ہوئے رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوگیا،آپ ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا’’اپنے گھروالوں کیلئے کیاچھوڑکرآئے ہو؟‘‘میں نے عرض کیا ’’اتناہی مال ان کیلئے بھی چھوڑآیاہوں‘‘۔حضرت ابوبکراپناسارامال لئے ہوئے حاضر ہوگئے،رسول اللہﷺنے ان سے بھی یہی دریافت فرمایاکہ ’’اپنے گھر والوں کیلئے کیاچھوڑکرآئے ہو؟‘‘ ابوبکرنے جواب دیا ’’اے اللہ کے رسول! گھروالوں کیلئے میں اللہ اوراس کے رسول کانام چھوڑآیاہوں‘‘۔ تب میں نے اپنے دل میں سوچاکہ ’’آج کے بعدمیں کبھی ابوبکرسے سبقت لے جانے کی کوشش نہیں کروں گا۔

7-سن ۹ہجری میں باقاعدہ اسلامی عبادت کے طورپر جب فرضیتِ حج کاحکم نازل ہوا تورسول اللہﷺنے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کواپنے نائب کی حیثیت سے ’’امیرالحجاج‘‘ مقررفرمایا،اورتمام مسلمانوں نے دینِ اسلام کے اہم ترین رکن کی حیثیت سے تاریخ میں پہلی بارفریضۂ حج حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی امارت میں اداکیا۔

8-رسول اللہﷺاس جہانِ فانی سے رحلت سے قبل آخری ایام میں جب ۷/ربیع الاول بروزبدھ مسجدمیں آخری باراپنے منبرپرجلوہ افروزہوئے اورمتعددنصیحتیں اور وصیتیں فرمائی ،اسی موقع پرآپﷺ نے وہاں موجودافرادکومخاطب کرتے ہوئے یہ ارشاد بھی :

اِنَّ عَبْداً خَیَّرَہُ اللّہُ أن یُؤتِیَہٗ مِن زَھرَۃِ الدُّنیَا مَا شَائَ ، وَبَیْنَ مَا عِندَہٗ ، فَاختَارَ مَا عِندَہٗ ترجمہ:اللہ کاایک بندہ ہے،جسے اللہ نے اس بات کااختیاردیا ہے کہ اگروہ چاہے تو اللہ اسے دنیاوی زندگی کی خوب رونقیں عطاء فرمائے، اور اگر وہ چاہے تواب اللہ کے پاس موجودنعمتوں میں چلاآئے،لہٰذا اس بندے نے اللہ کے پاس موجودنعمتوں کوپسندکرلیاہے۔

اس حدیث کے راوی حضرت ابوسعیدخدریؓ فرماتے ہیں کہ ’’یہ بات سن کرحضرت ابوبکرؓ رونے لگے،اوربیساختہ یوں کہنے لگے: فَدَینَاکَ بِآبَائِنَا وَأمّھَاتِنَا یَا رََسُولَ اللّہ)۔ ترجمہ:اللہ کے رسول! آپ پرہمارے ماں باپ قربان‘‘ابوبکرؓکی ا س کیفیت پرہمیں تعجب ہونے لگا،یہ منظردیکھ کرکچھ لوگ یوں کہنے لگے کہ ابوبکر کو دیکھو رسول اللہﷺہمیں یہ بات بتارہے ہیں کہ ’’اللہ کاایک بندہ ہے ٗ جسے اللہ نے اس بات کااختیاردیا ہے کہ اگروہ چاہے تو اللہ اسے دنیاوی زندگی کی خوب رونقیں عطاء فرمائے،اوراگروہ چاہے تواب اللہ کے پاس موجودنعمتوں میں چلاآئے،اوراس بندے نے اللہ کے پاس موجودنعمتوں کوپسندکرلیاہے‘‘۔اور ابوبکرکودیکھو،رسول اللہﷺکی یہ بات سن کریہ رورہے ہیں ،اورکہتے ہیں کہ ’’اے اللہ کے رسول! آپ پرہمارے ماں باپ قربان‘‘ بھلایہ کیابات ہوئی…؟؟

اس کے بعدحضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (فَکَانَ رَسُولُ اللّہِﷺ ھُوَ المُخَیَّرُ ، وَکَانَ أبُوبَکر أعْلَمَنَا)(بخاری و مسلم )یعنی ’’اللہ کی طرف سے اپنے جس بندے کو یہ اختیاردیاگیاتھا،وہ خودرسول اللہﷺتھے،اورابوبکرہم سب ہی سے زیادہ علم والے تھے۔‘‘

مطلب یہ کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی جانب سے اختیاردیئے جانے پرجواب میں رسول اللہﷺ اس فانی دنیامیں اب مزیدزندگی بسرکرنے کے بجائے اپنے رب کے جوارِرحمت میں منتقل ہوجانے کوپسندفرمایا،ہم اس بات کونہیں سمجھ سکے،البتہ ابوبکررضی اللہ عنہ ہم میں سب سے زیادہ علم ودانش سے مالامال تھے،رسول اللہﷺکی گفتگوکو نیزاس میں پوشیدہ اسرارورموزکوہم سب سے زیادہ وہی سمجھنے والے تھے،لہٰذااس رازکی بات کو ہم نہ سمجھ سکے ،اوراس وجہ سے ہم تعجب کرنے لگے،جبکہ حضرت ابوبکرؓاس راز کوسمجھ گئے اوربے اختیاررونے لگے۔

یقینااس سے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کامقام ومرتبہ، فہم وفراست، رسول اللہﷺ کے ساتھ ان کاخاص تعلقِ خاطر اورمزاج شناسی نیزتمام صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی برگزیدہ ترین جماعت میں ان کی خاص حیثیت اوردینی بصیرت واضح وثابت ہوتی ہے۔

9- رسول اللہﷺ کی حیاتِ طیبہ کے آخری ایام میں جب شدتِ مرض کی وجہ سے نقاہت بہت بڑھ چکی تھی اورآپ ﷺ کواطلاع دی گئی کہ عشاء کی نمازکے لیے لوگ مسجدمیں منتظرہیں،تو آپﷺ نے ارشادفرمایاکہ:’’مُرُوا أبَابَکر، فَلیُصَلِّ بِالنَّاس‘‘ (بخاری)”ابوبکرسے کہوکہ وہ لوگوں کو نمازپڑھائیں‘‘۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاچونکہ اپنے والد(حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ) کے مزاج سے بخوبی واقف تھیں،لہٰذاانہوں نےعرض کیا’’اے اللہ کے رسول! وہ توبہت ہی کمزوراورنرم دل انسان ہیں، ان کی آوازبھی کافی پست ہے،مزیدیہ کہ وہ جب بھی قرآن پڑھتے ہیں توبہت زیادہ رونے لگتے ہیں‘‘

تب آپ ﷺنے اپناوہی حکم دہرایا، اورحضرت عائشہ ؓ نے بھی اپنی وہی گذارش دہرائی،تیسری بارآپﷺ نے قدرے سختی کے ساتھ یہی حکم دہرایا۔ غورطلب بات ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے تمام صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی برگزیدہ وپاکیزہ ترین جماعت میں سے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کواپنی مسجدمیں ، اپنی جگہ نمازپڑھانے کیلئے ، اورتمام مسلمانوں کی امامت کیلئے خودمنتخب فرمایا،مزیدیہ کہ اصراراورتاکیدکے ساتھ متعددباراس چیزکاحکم دیا۔چنانچہ خودرسول اللہﷺکی حیاتِ طیبہ کے دوران حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ آپﷺ کے مصلیٰ پرکھڑے ہوکر امامت کے فرائض انجام دیتے رہے،جبکہ آسمانوں سے نزولِ وحی کا،نیزجبریل امین علیہ السلام کی آمدورفت کاسلسلہ بدستور جاری تھا۔یقینااس سے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی عظمتِ شان ظاہرہوتی ہے ۔

رسول اللہﷺ کی رحلت کے موقع پرحضرت ابوبکرصدیقؓ کاکردار

رسول اللہﷺکی رحلت کا سانحہ یقیناتمام مسلمانوں کیلئے بہت ہی بڑاصدمہ تھا، جیساکہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

مَا رَأیتُ یَوماً قَطُّ کَانَ أحسَنَ وَلَا أضوَأَ مِن یَومٍ دَخَلَ عَلَینَا فِیہِ رَسُولُ اللّہِﷺ وَمَا رَأیتُ یَوماً أقبَحَ وَلَا أظلَمَ مِن یَومٍ مَاتَ فِیہِ رَسُولُ اللّہِﷺ (مشکوۃ )

ترجمہ:’’میں نے مدینہ شہرمیں کبھی کوئی ایسا خوشگواراورروشن دن نہیں دیکھاکہ جیسارسول اللہ ﷺکی مدینہ تشریف آوری کے موقع پرتھا،اسی طرح میں نے مدینہ شہرمیں کبھی اس قدر سوگوار اوربجھاہوا دن نہیں دیکھاکہ جیسارسول اللہﷺکی وفات کے موقع پرتھا‘‘۔

چنانچہ اُس مدینہ شہرمیں ہرجانب رنج والم کی فضاء چھائی ہوئی تھی،ہرکوئی غم کے سمندرمیں ڈوباجارہاتھا،ہرایک پربے خودی کی کیفیت طاری تھی،اورہرطرف آہ وبکاء کا ماحول تھا،کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہاتھا،نہ ہی کسی کاذہن اس جان لیواخبرکوقبول کرنے کیلئے آمادہ تھاکہ رسول اللہﷺ اب ہمیشہ کیلئے ہم سے جداہوچکے ہیں۔ایسی نازک ترین صورتِ حال میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کاناقابلِ فراموش کردارتمام امت کیلئے سہارے اورتسلی کاباعث بنا۔

اس موقع پروہاں موجود افرادکے سامنے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے مختصرخطبہ دیا،جس میں رسول اللہﷺکی اس جہانِ فانی سے رحلت کایوں اعلان فرمایا ’’مَن کَانَ مِنکُم یَعبُدُ مُحَمَّداً فَاِنَّ مُحَمَّداً قَد مَاتَ ، وَمَن کَانَ یعبُدُ اللّہَ فَاِنَّ اللّہَ حَيٌّ لَا یَمُوتُ(بخاری)’’تم میں سے جوکوئی محمدﷺکی عبادت کرتاتھا وہ جان لے کہ محمدﷺکااب انتقال ہوچکاہے،اورجوکوئی اللہ کی عبادت کرتاتھا تواللہ ہمیشہ زندہ رہنے والاہے اسے کبھی موت آنے والی نہیں ہے‘‘

پھرقرآن کریم کی یہ آیت تلاوت کی:{وَمَا مُحَمَّدٌ اِلّا رَسُولٌ قَد خَلَتْ مِن قَبلِہِ الرُّسُلُ أفَاِن مَّاتَ أو قُتِلَ انقَلَبتُم عَلَیٰ أعْقَابِکُم ومَن یَّنقَلِبْ عَلَیٰ عَقِبَیہِ فَلَن یَّضُرَّ اللّہَ شَیئاً وَّ سَیَجزِي اللّہُ الشَّاکِرِینَ} (آل عمران:144)ترجمہ:’’محمدﷺتوصرف رسول ہی ہیں،ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گذرچکے ہیں،کیااگران کاانتقال ہوجائے یاوہ شہیدہوجائیں توتم اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھرجاؤگے؟ اورجوکوئی پھرجائے اپنی ایڑیوں پرتوہرگزوہ اللہ کاکچھ نہیں بگاڑے گا،عنقریب اللہ شکرگذاروں کونیک بدلہ دے گا‘‘۔

حضرات صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس آیت اوراس کے مضمون سے خوب واقف تھے ، اورعرصۂ درازسے پڑھتے اورسنتے چلے آرہے تھے،لیکن اس روزحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی زبانی جب یہ آیت سنی توانہیں یوں محسوس ہواکہ گویایہ آیت ابھی نازل ہوئی ہو،ان کے ذہنوں میں اس آیت کامضمون تازہ ہوگیا، وہ سب اس آیت کو بارباردہرانے لگے،جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ اُس وقت وہاں جس شخص کی طرف بھی میری نگاہ اٹھی ،مجھے اس کے لب ہلتے ہوئے نظرآئے، اوروہ یہی آیت زیرِلب دہراتاہوانظرآیا۔

اس کانتیجہ یہ ہواکہ لوگوں کے غم واضطراب میں بتدریج کمی آنے لگی اوررفتہ رفتہ انہیں اس تلخ ترین حقیقت پریقین آنے لگاکہ رسول اللہﷺواقعی اب ہم میں نہیں رہے، اوریوں اُس نازک ترین موقع پرحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کایہ تاریخی کردارتمام مسلمانوں کیلئے تسلی و تشفی کا نیزصورتِ حال کوبگڑنے سے بچانے کاسبب اورذریعہ بنا۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں