عشرہ مبشرہ کا تفصیلی تعارف : پانچویں قسط

عشرہ مبشرہ کا تفصیلی تعارف : پانچویں قسط

جمعِ قرآن

رسول اللہﷺ کی اس جہانِ فانی سے رحلت کاجاں گدازواقعہ پیش آنے کے فوری بعدملکِ عرب کے اطراف واکناف میں جھوٹے مدعیانِ نبوت کافتنہ جوبڑی ہی شدومد کے ساتھ ظاہر ہواتھا، انہی فتنوں میں بالخصوص ’’مسیلمہ کذاب‘‘ کافتنہ کافی پریشان کن صورتِ حال اختیارکرتاجارہاتھا۔ ’’یمامہ‘‘سے تعلق رکھنے والایہ شخص بہت زیادہ طاقت، قوت ،شان وشوکت اورجوش وخروش کے ساتھ اپنی ’’نبوت‘‘کے دعوے اوراپنی جھوٹی تعلیمات کی نشرواشاعت میں مشغول ومنہمک تھا۔

نبوت کے اس جھوٹے مدعی کی طرف سے برپاکردہ اس فتنے کی شدت کااندازہ اس بات سے کیاجاسکتاہے کہ اس کی سرکوبی کی غرض سے ’’یمامہ‘‘کے مقام پرجوجنگ لڑی گئی اُس میں شہیدہونے والے مسلمانوں کی تعدادایک ہزارسے زائدتھی ،ظاہرہے کہ ان میں بہت بڑی تعداد حضرات صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تھی ،کیونکہ رسول اللہﷺ کی رحلت کے محض چندماہ بعدہی یہ جنگ پیش آئی تھی۔

اس اتنے بڑے نقصان کے علاوہ بالخصوص جوبات تمام مسلمانوں کیلئے بہت زیادہ اضطراب اورتشویش کاباعث بنی وہ یہ کہ اس موقع پراتنی بڑی تعدادمیں شہیدہونے والے ان مسلمانوں میں سترحفاظِ قرآن بھی تھے۔ایک ہی جنگ میں سترحفاظِ قرآن کی ایک ساتھ شہادت،اگریہ سلسلہ جاری رہا، توقرآن کریم کا کیاہوگا؟یہ سوال ظاہرہے کہ ہرمسلمان کیلئے بڑی پریشانی وفکرمندی کاباعث تھا،البتہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ اس معاملہ میں بطورِخاص بہت زیادہ فکرمنداورمضطرب تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اولین فرصت میں خلیفۂ وقت حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے اپنی اس پریشانی کااظہارکرتے ہوئے پرزوراصرارکیاکہ جلدازجلد’’کتاب اللہ‘‘ کی حفاظت کی طرف توجہ دی جائے، قرآن کریم کی تمام آیات کو یکجاکرکے ہمیشہ کیلئے کتابی شکل میں محفوظ کرلیاجائے۔

اس پرحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیاکہ’’جوکام خودرسول اللہﷺنے انجام نہیں دیا،میں وہ کام کس طرح کرسکتاہوں؟‘‘حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے اس معذرت اورانکارکے باوجودحضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مسلسل اصرارکرتے ہی رہے، جس پرآخرحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کوان کے اس مطالبے اوراصرارپراطمینان اورشرحِ صدرہوگیا، اورتب انہوں نے جمعِ قرآن کےلیے حضرات صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی برگزیدہ ترین جماعت میں سے چندایسے حضرات کاانتخاب فرمایاجنہیں بطورِخاص قرآنی علوم میں بڑی دسترس اورانتہائی مہارت حاصل تھی۔ اورپھران منتخب حضرات پرمشتمل کمیٹی کی سربراہی ونگرانی کی عظیم ترین ذمہ داری رسول اللہﷺکے جلیل القدرصحابی حضرت زیدبن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کوسونپی ، جوعرصۂ درازتک آپﷺ کی خدمت میں بطورِ ’’کاتبِ وحی‘‘خدمات انجام دیتے رہے تھے۔

چنانچہ ان حضرات نے انتہائی عرق ریزی اورمحنتِ شاقہ کے بعد’’جمعِ قرآن‘‘کایہ اہم ترین کام انجام دیا،جبکہ اس دوران خلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ براہِ راست مسلسل ا س انتہائی حساس اوراہم ترین کام کی نگرانی کافریضہ انجام دیتے رہے۔یوں پہلی بارقرآن کریم کویکجا کتابی شکل میں ہمیشہ کیلئے محفوظ ومُدوّن کرلیاگیا۔

یقینا خلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے کلام اللہ کی یہ بہت بڑی خدمت ناقابلِ فراموش کارنامہ،انتہائی قابلِ تحسین اقدام،نیزہمیشہ کیلئے تمام امتِ مسلمہ پربہت عظیم احسان تھا۔

سادگی وانکسار

خلافت کے عظیم ترین منصب پرفائزہونے کے باوجودصدیق اکبررضی اللہ عنہ کی سادگی اورانکساری کایہ عالم تھا کہ ہمیشہ خدمتِ خلق میں مشغول ومنہمک رہاکرتے،خوداپنے ہاتھوں سے بلاجھجک دوسروں کے روزمرہ کے کام کاج کردیاکرتے،بیکسوں کی دستگیری اور ضرورتمندوں کی خبرگیری کوانہوں نے تاحیات اپنا شیوہ وشعاربنائے رکھا۔

حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

ابوبکررضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت کے دوران میں ان کے معمولات کا جائزہ لیا کرتاتھا، چنانچہ ایک روزمیں نے انہیں خاموشی کے ساتھ مدینہ شہرسے باہرکی جانب روانہ ہوتے دیکھا،میں بھی ان کے پیچھے ہولیا،ایک مضافاتی بستی میں پہنچنے کے بعدوہ ایک معمولی سی جھونپڑی میں داخل ہوگئے، اورپھرکچھ وقت گذرنے کے بعدوہاں سے نکلے اور واپس مدینہ شہرکی طرف چل دئیے،میں اس جھونپڑی میں جاپہنچا،وہاں میں نے دیکھاکہ ایک نابینا بڑھیا ہے،اوراس کے ہمراہ چندچھوٹے بچے بھی ہیں۔میں نے اس بڑھیاسے دریافت کیا’’اے اللہ کی بندی! اللہ تم پر رحم فرمائے، یہ شخص کون تھا جوابھی تمہاری جھونپڑی سے نکل کرگیاہے؟ بڑھیانے جواب دیا’’یہ شخص یہاں اکثرآیاکرتاہے،لیکن ہمیں نہیں معلوم یہ کون ہے‘‘۔ تب میں نے کہا’’اچھا!یہ بتاؤ،یہ شخص یہاں آکرکیاکرتاہے؟‘‘ اس پر بڑھیا نے کہا’’یہ ہماری اس جھونپڑی میں جھاڑولگاتاہے،صفائی کرتاہے،ہمارے لئے پانی بھرتاہے،ہمارے لئے کھانابھی تیارکرتاہے،اورپھرہمارے برتن مانجھتاہے، اور پھر واپس چلاجاتاہے‘‘۔

حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے جب خلیفۂ وقت اوررسول اللہﷺکے اولین جانشین صدیقِ اکبررضی اللہ عنہ کی یہ ’’عظمت‘‘دیکھی ، اوراس ضعیف ونابینابڑھیا کی زبانی یہ تمام گفتگوسنی تو ان کی آنکھوں سے بے اختیارآنسوبہنے لگے۔

وفات

خلیفۂ او ل حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کادورِخلافت مختصر لیکن انتہائی اہم تھا،لہٰذااس نازک ترین دورمیں انتہائی جرأت مندانہ اورفیصلہ کن قسم کے فوری اقدامات کی اشدضروری تھی کہ جن پرآئندہ ہمیشہ کیلئے اُمت کی بقاء کاانحصارتھا۔

چنانچہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اس موقع پرصدق واخلاص ،دینی بصیرت،فہم وفراست ،عزم واستقامت اوربے مثال ایمانی جرأت کامظاہرہ کرتے ہوئے انتہائی قابلِ تحسین اوردوررس قسم کے اقدامات کئے ، تمام فتنوں کاقلع قمع کیا،یہی وجہ ہے کہ تاریخِ اسلام میں ان کانام ہمیشہ روشن اوران کاکردارہمیشہ ناقابلِ فراموش رہے گا۔

اسی کیفیت میں تقریباًستائیس ماہ تک امت کی قیاد ت کافریضہ بحسن وخوبی انجام دینے کے بعدآخر ٹھنڈے موسم سے متأثرہونے کے نتیجے میں ان کی طبیعت ناسازہوگئی، مرض شدت اختیارکرتاگیا۔اسی کیفیت میں انہوں نے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشاورت کے بعد حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کواپناجانشین مقررکیا۔ اپنی بیٹی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکووصیت کی کہ ’’مجھے پرانے کپڑوں میں کفنانا،کیونکہ نئے کپڑے پہننے کے مستحق زندہ لوگ ہیں‘‘۔

اورپھراس مختصرعلالت کے بعد۲۲جمادیٰ الثانیہ بروزِپیر سن ۱۳ہجری میں تریسٹھ برس کی عمرمیں اس دنیائے فانی سے کوچ کرتے ہوئے اپنے اللہ سے جاملے۔ بوقتِ انتقال زبان پر آخری الفاظ یہ تھے :تَوَفَّنِي مُسْلِماً وَّ أَلحِقْنِي بِالصَّالِحِینَ)(یوسف :101) اے میرے رب! مجھے مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دینا، اورمرنے کے بعدصالحین کے پاس جگہ عطاء فرمانا‘‘۔

رسول اللہﷺکی قبرمبارک کے پہلومیں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کوسپردِ خاک کیاگیا، یوں ’’رفیقِ غار‘‘اور’’رفیقِ سفر‘‘اب ہمیشہ کیلئے ’’رفیقِ قبر‘‘ بھی بن گئے۔

الحمد للہ یہاں تک سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا تعارف مکمل ہوا ۔ان شاءا للہ آئندہ اقساط میں خلیفہ دوم سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا تعارف پیش کیا جائے گا ۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں