عشرہ مبشرہ کا تفصیلی تعارف : پہلی قسط

عشرہ مبشرہ کا تفصیلی تعارف : پہلی قسط

1-حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ

جن دس خوش نصیب افراد کو رسول اللہ ﷺ نے نام لے کر دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی ان میں سب سے بڑا مرتبہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہے۔یہ رسول اللہﷺ کے اولین جانشین اورخلیفۂ ہیں جن کوتاریخ میں ’’ابوبکرصدیق‘‘کے نام سے یادکیاجاتاہے،ابوبکران کی کنیت تھی،جبکہ’’صدیق‘‘لقب تھا، اصل نام ’’عبداللہ‘‘تھا،اسلام سے قبل ان کانام ’’عبدالکعبہ‘‘تھا،قبولِ اسلام کے بعدخودرسول اللہﷺنے ان کانام عبدالکعبہ سے تبدیل کرکے ’’عبداللہ‘‘رکھ دیاتھا۔بچپن سے ہی ’’عتیق‘‘کے لقب سے بھی مشہورتھے ،البتہ قبولِ اسلام کے بعد ایک موقع پررسول اللہﷺ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے یہ خوشخبری سنائی کہ : أنتَ عَتِیْقُ اللّہِ مِنَ النَّارِ(ترمذی) “آپ اللہ کی طرف سے جہنم کی آگ سے آزادکردہ ہیں‘‘۔

حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے والدکانام ’’ابوقحافہ‘‘ جبکہ والدہ کانام ’’سلمیٰ‘‘تھا،یہ دونوں باہم چچازادتھے،لہٰذاوالداوروالدہ دونوں ہی کی طرف سے آپؓ کاسلسلۂ نسب ساتویں پشت (مُرّہ بن کعب )پررسول اللہﷺکے سلسلۂ نسب سے جاملتاہے۔آپ رضی اللہ عنہ قُرَشی تھے،مہاجرتھے،قبیلۂ قریش کے معزز خاندان’’بنوتَیم‘‘سے ان کاتعلق تھا،جوکہ مکہ کے مشہورمحلہ’’مسفلہ‘‘میں آبادتھا۔حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ’’عشرہ مبشرہ‘‘یعنی ان دس خوش نصیب ترین افرادمیں سے تھے جنہیں رسول اللہﷺنے جنت کی خوشخبری سے شادکام فرمایاتھا۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کورسول اللہﷺ کے انتہائی مقرب اورخاص ترین ساتھی ہونے کے علاوہ مزیدیہ شرف بھی حاصل تھاکہ آپؓ رسول اللہﷺ کے سسربھی تھے،اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاآپؓ ہی کی صاحبزادی تھیں۔

حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کویہ خاص شرف اوراعزازبھی حاصل تھا کہ ان کے خاندان میں مسلسل چارنسلوں کورسول اللہﷺکی صحبت ومعیت کاشرف نصیب ہوا،چنانچہ ان کے والدین بھی صحابی تھے ،یہ خودبھی صحابی تھے،ان کے صاحبزادے عبداللہ اور عبدالرحمن ٗ نیزصاحبزادیاں عائشہ اوراسماء اورنواسے عبداللہ بن زبیر(رضی اللہ عنہم اجمعین) رسول اللہﷺ کے صحابہ تھے۔

حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی ولادت مکہ میں رسول اللہﷺکی ولادت باسعادت کے تقریباً ڈھائی سال بعداوروفات مدینہ میں آپﷺکی وفات کے تقریباًڈھائی سال بعد ہوئی۔

حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ جاہلیت اوراسلام دونوں ہی زمانوں میں نہایت باوقار اوروضع داررہے،تمدنی ومعاشرتی زندگی میں انہیں ہمیشہ ممتازمقام حاصل رہا، ظہورِ اسلام سے قبل بھی اُس معاشرے میں انہیں ہمیشہ انتہائی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، سب اہلِ مکہ اپنے اختلافات اورخاندانی جھگڑوں میں انہیں اپنا ’’ثالث‘‘ مقرر کرتے ، اورپھران کے ہرفیصلے کوبلاچوں وچراتسلیم کیاکرتے تھے۔

رسول اللہﷺکوجب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے نبوت عطاء کی گئی اورآپ ﷺ نے اعلانِ نبوت فرمایاتب آپ ﷺکی اہلیہ محترمہ ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاودیگر افرادِ خانہ کے بعدسب سے پہلے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے دینِ اسلام قبول کیا، آپ ﷺکی مکمل تصدیق کی ، اوراس موقع پرکوئی دلیل یامعجزہ نہیں مانگا۔

حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کاظہورِاسلام سے قبل ہی رسول اللہﷺکے ساتھ بہت گہراتعلق تھا،دونوں میں بہت قربتیں تھیں ،اورایک دوسرے کے گھرآمدورفت کاسلسلہ رہتاتھا۔حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی ذاتی ملکیت میں قبولِ اسلام کے وقت نقدچالیس ہزاردرہم تھے ،قبولِ اسلام کے بعدانہوں نے اپنی یہ کل پونجی رسول اللہﷺکی خدمت اوردینِ اسلام کی نشرواشاعت میں صرف کردی۔

دینِ اسلام کے ابتدائی دورمیں متعددایسے افرادجوکہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے ،اوردینِ اسلام قبول کرلینے کی وجہ سے اپنے مشرک آقاؤں کے ہاتھوں بدترین عذاب اورسختیاں جھیلنے پرمجبورتھے ،انہیں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی جیبِ خاص سے نقدرقم اداکرکے ان کے مشرک آقاؤں سے خریدلیا،اورپھراللہ کی خوشنودی کی خاطرانہیں آزادکردیا…قرآن کریم کی درجِ ذیل آیت میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا گیاہے: {وَسَیُجَنَّبُھَا الأَتْقَیٰ الَّذِي یُؤتِي مَالَہٗ یَتَزَکَّیٰ وَمَا لِأَحَدٍ عِندَہٗ مِنْ نِعمَۃٍ تُجْزَیٰ اِلَّاابْتِغٓائَ وَجْہِ رَبِّہٖ الأَعلَیٰ وَلَسَوفَ یَرْضَیٰ}(اللیل 17۔۔21):(اورایساشخص اُس [جہنم]سے دوررکھاجائے گا جوبڑا پرہیزگارہوگا،جوپاکی حاصل کرنے کیلئے اپنامال دیتاہے،کسی کااُس پرکوئی احسان نہیں کہ جس کابدلہ دیاجارہاہو،بلکہ صرف اپنے پروردگاربزرگ وبلندکی رضاچاہنے کیلئے،یقیناوہ [اللہ]عنقریب راضی ہوجائے گا) ۔

مفسرین کے بقول اس آیت کامفہوم اگرچہ عام ہے ،یعنی جوکوئی بھی محض اللہ کی رضامندی وخوشنودی کی خاطر اپنامال خرچ کرے گاوہ جہنم کی آگ سے محفوظ رہے گا…البتہ بطورخاص اس سے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ بھی مقصودہے۔

حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کااُس معاشرے میں کافی اثرورسوخ تھا اورحلقۂ احباب بھی کافی وسیع تھا،لہٰذاانہیں اللہ کی طرف سے ’’ہدایت ‘‘کی شکل میں جوخیرنصیب ہوئی تھی اسے انہوں نے خوداپنی ذات تک محدودرکھنے کی بجائے اس اثرورسوخ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسروں تک پہنچانے کی کوشش بھی نہایت سرگرمی اورجذبے کے ساتھ شروع کردی ، چنانچہ ان کی ان دعوتی وتبلیغی کوششوں کے نتیجے میں اُس معاشرے کے متعدد ایسے بڑے بڑے اوربااثر افرادمشرف باسلام ہوگئے جوآگے چل کردینِ اسلام کے بڑے علمبردار اور اس قافلۂ توحیدکے سپہ سالارثابت ہوئے…دینِ اسلام کی نشرواشاعت اورسربلندی کی خاطر جنہوں نے تاریخی خدمات اورناقابلِ فراموش کارنامے انجام دئیے ، ’’عشرہ مبشرہ ‘‘ یعنی وہ دس خوش نصیب ترین حضرات جنہیں اس دنیاکی زندگی میں ہی رسول اللہ ﷺ نے جنت کی خوشخبری سے شادکام فرمایاتھا ان میں سے پانچ حضرات نے آپؓ کی دعوت اور تبلیغی کوششوں کے نتیجے میں ہی دینِ برحق قبول کیاتھا۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں