بعث بعد الموت(موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے) کا عقیدہ:تیسری قسط

بعث بعد الموت(موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے) کا عقیدہ:تیسری قسط

بعث بعد الموت کے اخلاقی پہلو

1۔ دوسری زندگی کا اخلاقی پہلو یہ ہے کہ کہ اگر کوئی شخص یہ یقین کر لے کہ اس دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے، موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے جہاں اسے اپنے کیے کا حساب دینا ہوگا تو پھر حکومت کے قوانین کے سوا کوئی چیز دنیا میں اسے کسی برائی کو اختیار کرنے سے نہیں روک سکتی۔اورجب الحاد غالب آئے گا تو پھر حکومت کے قوانین بھی صرف انسانوں کو ایک دوسرے کی آزادی میں مخل ہونے سے روکنے کے لیے ہوں گے۔ یوں پھر زندگی کا مقصد اس دنیا میں زیادہ سے زیادہ لذت کوشی ہی رہ جائے گی۔پھر مادر پدر معاشرتی آزادی ایک انسان کو برہنہ پھرنے کا حق دے گی اور انسان کو جانوروں کی سطح پر آنے میں کوئی چیز مانع نہ رہے گی۔حالانکہ ظاہر ہے انسان اور جانور میں نمایاں فرق ہے۔اس لیے معاد یعنی قیامت کے فلسفے کو سمجھنا ضروری ہے۔جسے معاد کی سمجھ آگئی ،سمجھ لیں اس کی ساری گتھیاں سلجھ گئیں۔

2۔ اس دنیا میں نہ نیکی کرنے والے کو اس کی نیکی کا پورا پورا بدلہ ملتا ہے نہ گناہ گار کو اس کے گناہ کی پوری پوری سزا۔ اس پر انسانی ضمیر اور فطرت آواز اٹھاتی ہے کہ کوئی ایسا سلسلہ ضرور ہونا چاہیے جس سے نیکو کار کو اس کی نیکیوں کا پورا پورا بدلہ ملے اور گناہ گار کو اس کے گناہوں کا انجام بد بھگتنا پڑے۔ انسانی ضمیر کی اسی آواز کا جواب ’’عقیدۂ آخرت‘‘ ہے۔

ابطال عقیدہ تناسخ

ہندوستان کے ہندو بھی بعث بعد الموت کے منکر ہیں، وہ کہتے ہیں کہ قیامت کا کوئی وجود نہیں ہے ،البتہ کسی بھی انسان کے مرنے کے بعد اس کی روح منتقل ہوجاتی ہے ،یعنی نیک لوگوں کی روحیں اچھے جسموں میں اور بدلوگوں کی روحیں کتے، بلی، سور، ریچھ، گدھے وغیرہ کے قالب میں منتقل ہوتی رہتی ہیں اور روح کا اس طرح مختلف جسموں میں منتقل ہونے کا نام تناسخ ہے۔ اہل اسلام کہتے ہیں کہ عقیدہ تناسخ بالکل مہمل اورخلاف عقل ہے ،اس لئے کہ جزا اور سزا کے لئے یہ ضروری ہے کہ جس کو سزا دی جارہی ہے اس کو اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ یہ اس کے فلاں جرم کی سزا ہے مگر دوسرے جنم میں آنے والے کو اس کا مطلق علم نہیں ہوتا کہ میں اس جنم میں کس گناہ کی وجہ سے آیا ہوں۔ سب کو معلوم ہے کہ اگر کوئی شخص سالہا سال کسی شہر میں رہ کر آیا ہو تو دوسرے شہر میں پہنچ کر اس کو پہلے شہر کے اکثر واقعات یاد رہتے ہیں اور لوگوں کو سناتا ہے۔ پس اگر ہندوؤں کے بقول آدمی اس سے پہلے دنیا میں رہ چکا ہو تو کیا سبب ہے کہ وہ یہاں آکر اُس جنم کے کسی حال کی خبر نہیں دیتے؟۔ معلوم ہوا کہ اس سے پہلے کبھی وہ اس دنیا میں نہیں آئے۔

بعث بعد الموت کے عقلی دلائل

1۔انبیاء و رسل کی دعوت اور قیامت کو جن قوموں نے نہیں مانا وہ دنیا میں ہی ہلاکت اور عذاب کا شکار ہوئی۔ نبیوں کی دعوت کا اہم جزو قیامت سے ڈرانا اور اس کے وقوع کی خبر دینا تھا، قوموں پر عذاب اس عقیدے سے انکار کی وجہ سے آئے۔ یہ اس کی دلیل ہے کہ وقوع قیامت برحق ہے۔

2۔آسمان و زمین اور کوئی بھی مخلوق اس دنیا میں موجود نہ تھی۔ اﷲ تعالیٰ ان کو عدم سے وجود میں لائے۔ اس کے بعد سے اب تک تخلیق کا سلسلہ رواں دواں ہے۔ اﷲ تعالیٰ غلہ اناج اور پھلوں کو عدم سے وجود میں لاتے ہیں۔ ایک بے جان انڈے سے زندہ چوزے کو اور زندہ مرغی سے بے جان انڈے کو پیدا فرماتے ہیں۔ ایک دن کے ختم ہونے کے بعد اگلے دن دوبارہ صبح پیدا فرماتے ہیں۔ اﷲ رب العزت جب ان سب مخلوقات کو عدم سے وجود میں لا سکتے ہیں تو انسان کے مرنے کے بعد اسے دوبارہ زندہ کیوں نہیں کرسکتے؟

3۔عقل مند انسان ہمیشہ احتیاط پر عمل کرتا ہے۔ وہ اہم امور کے لیے ایسی پیش بندی اور پلاننگ کرتا ہے جس میں خطرات کم سے کم ہوں۔ قیامت کا انکار کرنے والے ذرا سوچیں کہ اگر ان کی سوچ اور آئیڈیا کے برخلاف قیامت کا وقوع ہوگیا تو یہ ان کے مستقبل کی زندگی کے لیے کس قدر بھیانک خطرہ ہوگا یقینا یہ بڑے خطرے کا الارم ہے۔ اس لیے احتیاط اور پیش بندی کا تقاضہ یہ ہے کہ عقیدۂ آخرت پر ایمان لے آئیں ورنہ کہیں بھیانک انجام نہ ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں