بہنوئی کے ساتھ عمرے کے لیے جانا 

سوال : کوئی عورت اپنی بہن اور بہنوئی کے ساتھ عمرہ پر جا سکتی ہے؟

سائلہ : ام احمد 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

فتویٰ نمبر:285

الجواب باسم ملہمم الصواب

عورت کے لیے اڑتالیس میل یا اس سے زیادہ بغیرمحرم کے سفر کرنا ناجائز وحرام ہے اور سفر میں ایسے محرم کا ہونا ضروری ہے جس کے ساتھ مستقبل میں کبھی بھی نکاح کرنا صحیح نہ ہو ، بہنوئی کے ساتھ بہن کے فوت ہوجانے یا اس کو طلاق دینے کے بعد نکاح صحیح ہے لہذا بہنوئی شرعا محرم نہیں ہے اور اس کے ساتھ عمرے کے لیے جانا جائز نہیں ہے ۔

“عن نافع عن عبد اللہ بن عمر عن النبی ﷺ قال : ’’ لا یحل لإمرأۃ تؤمن باللہ والیوم الآخر تسافر مسیرۃ ثلاث لیال إلاومعہاذومحرم ‘‘۔

الصحیح لمسلم : ٔ ا بواب الحج ، باب سفر المرأۃ مع محرم إلی الحج ،۱/۴۳۳) 

” عن ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ قال : قال النبی ﷺ : ’’ لا تحجن امرأۃ إلا ومعہا ذومحرم ‘‘ ۔ (السنن الدارقطنی : کتاب الحج،۲/۱۹۹)

“والمحرم في حق المرأۃ شرط، شابۃ کانت أو عجوزا۔ -إلی قولہ-: والمحرم الزوج ومن لا یجوز لہ مناکحتہا علی التأبید برضاع، أو صہریۃ۔”

(الفتاوی التاتارخانیۃ: کتاب الحج، الفصل الأول في شرائط الوجوب ۳/۴۷۴-۴۷۵) ) شامي: ۳/ ۴۶۴)

والله أعلم بالصواب 

بنت محمود 

دار الافتا ء صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر 

۱۶جمادی الثانی ۱۴۳۹ھ

۴مارچ ۲۰۱۸ ء

اپنا تبصرہ بھیجیں