بیعانہ ضبط کرنے کا حکم

سوال: کیا بیعانہ ضبط کرنا جائز ہے؟

الجواب باسم ملھم الصواب 

بیعانہ دو قسم کا ہوتا ہے:

1. پلاٹ کا سودا مکمل ہونے کے بعد خریدار کی طرف سے پیشگی رقم جو بیعانہ کے نام سے دی جاتی ہے، وہ اس پلاٹ کی طے ہونے والی قیمت ہی کا جزوی حصّہ ہوتی ہے، عربی میں اسے “عربون” کہتے ہیں، اس کا حکم یہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے خریدار سودا کینسل کردے تو بائع کے لیے اس رقم کو ضبط کرنا جائز نہیں ، بلکہ وہ رقم خریدار کو پوری واپس کرنا شرعاً ضروری ہے۔

2. دوسری قسم بیعانہ کی وہ ہے جو ڈیپازٹ اور ڈاؤن پیمنٹ کہلاتی ہے اور عربی میں اسے”الھامش الجدیہ” کہاجاتا ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ یہ رقم جزوثمن نہیں ہوتی بلکہ بائع کے پاس بطور امانت مضمونہ یعنی قرض کے طور پر محفوظ رہتی ہے۔ اسے سودا کینسل ہونے صورت میں خریدار کو واپس کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ وہ رقم ہوتی ہے جو خریدار سودا طے ہونے سے پہلے معاملہ میں اپنی سنجیدگی ظاہر کرنے کے لیے مالک کو دیتا ہے، یہ رقم مالک کے پاس امانت ہوتی ہے اس لیے اس کا واپس کرنا ضروری ہے، ضبط کرنا جائز نہیں۔ 

البتہ دونوں صورتوں میں خریدار کو معاملہ مکمل نہ ہونے کی وجہ سے کوئی خسارہ ہوا ہے تو اس کے لیے الگ سوال جمع کرائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“عن عمرو بن شعیب عن أبيه عن جده قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع العربان”.

(أخرجه أبو داوود: 3504) و(ابن ماجة: 2192)

وفي الهامش:

“(قوله:”بيع العربان” وهو أن يشتري السلعة ويعطي البائع درهماً أو أقلّ أو أكثر على أنه إن تمّ البيع حسب من الثمن وإلا لكان للبائع ولم يرجعه المشتري، وهو بيع باطل؛ لمافيه من الشرط والغرر”.

(مشکاۃ المصابیح، کتاب البیوع) 

وفي فقه البیوع:

“العربون والعربان : بیع فسرہ ابن منظور بقوله:” ھو ان یشتری السلعة ویدفع الی صاحبها شیئا یلی انه ان أمضی البیع جائز حسب من الثمن، وان یمض البیع، کان لصاحب السلعة، ولم یرتجعه المشتری”.

واختلف الفقہاء فی جواز العربون: فقال الحنفیۃ والمالکیۃ والشافعیۃ وابو الخطاب من الحنابلۃ : انه غیر جائز”.

(فقه البیوع: ١/ ١١٣)

“لَا يَجُوزُ لِأَحَدٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ أَخْذُ مَالِ أَحَدٍ بِغَيْرِ سَبَبٍ شَرْعِيٍّ”.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (4 / 61)

“هامش الجدية مبلغ يدفعه المشتري إلى البائع عند وعده بشراء شيئ قبل إنجاز البيع، ليثبت جديته في ذلك الوعد. وإن هذا المبلغ لا يأخذ حكم العربون، بل هو أمانة بيد البائع، يجب عليه أن يرده إلى مالكه إن لم يتم البيع لسبب من الأسباب.

(مشروع لقانون إسلامي للبيع والديون:17)

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں