احرام میں سلے ہوئے کپڑوں کا حکم

سوال: احرام میں سلے ہوئے کپڑے پہننے کا کیا حکم ہے؟

جواب:صورتِ مسئولہ میں اگر اس محُرم شخص نے سِلا ہوا کپڑا ایک دن یا ایک رات پہنا ہے تو اس پر ایک دم واجب ہوگا اور اگر اس سے کم پہنا ہے تو صدقہ فطر کے بقدر صدقہ (پونے دو کلو گیہوں یا اس کی قیمت) ادا کرے، اور اگر ایک گھنٹہ سے بھی کم پہنا ہے تو ایک مٹھی گیہوں دے دے۔

حنانچہ صحیح مسلم میں ہے:

عن سالم،عن ابیہ، قال: سٸل النبی،: ما یلبس المحرم ؟ قال : لا یلبس المحرم القمیص، ولا العمامة،ولاالبرنس ،ولا السراویل ، ولا ثوبا مسہ ورس ،ولازعفران ،ولا الخفین ، إلا أن لا یجد نعلین فلیقطعھما، حتی یکونا أسفل من الکعبین (الصحیح المسلم جلد1کتاب الحج الحدیث 4789)

ترجمہ:

سالم اپنے والد سے سے روایت کرتے ہیں،انھوں نے فرمایا کہ نبی کریمﷺ سے سوال کیا گیا کہ محرم( جو حالت احرام میں ہو) کیا پہنے؟؟

فرمایا: کہ محرم قمیض نہ پہنے اور نہ عمامہ اور نہ جبہ/چوغہ اور نہ شلوار اور نہ وہ کپڑا جس کو ورس ( “ورس” ایک قسم کی گھاس تِل کی مانند جس سے کپڑے کو رنگا جاتا) نے چھوا ہو اور نہ زعفران نے (مراد: رنگ دار اور خوشبو دار کپڑا نہ پہنے) اور نہ موزے پہنے مگر یہ کہ وہ جوتے نہ پاۓ تو پس چاہیے کہ وہ ان دونوں کو کاٹ دے یہاں تک کہ وہ دونوں ( یعنی موزے) ٹخنوں سے نیچے ہوجائیں .

===============

حوالہ جات:

1. فاذا لبس مخیطاً یوماً کاملاً او لیلۃ کاملۃ فدم، المراد مقدار احدہما فلو لبس من نصف النہار الی نصف اللیل من غیر انفصال او بالعکس لزمہ دم وفی اقل من یوم ولیلۃ صدقۃ الخ، وفی اقل من ساعۃ قبضۃ من بر او قبضتان من شعیر۔ (درمختار: ۳؍۵۷۷)

2.اذالبس المحرم الذکر المخیط وہو۔ الملبوس المعمول علی قدر البدن او علی قدر عضو منہ بحیث یحیط بہ۔۔۔ لبسا معتادا۔۔۔ ؛فعلیہ الجزاء۔

(غنیہ الناسک ۲۵۰ومثلہ فی الہندیہ،،۲۴۲/۱شامی زکریا ۴۹۹/۳

3.فاذا لبس مخیطا یوما کاملا او لیلہ کاملہ فدم؛المرادمقدار احدبما فلو لبس من نصف النہار الی نصف اللیل من غیر انفصال او بالعکس لازمہ دم وفی اول من یوم ولیلہ صدقہ الخ؛ وفی اقل من ساری قبضہ من بر او قبضتان من شعیر (غنیہ الناسک۲۵۱؛خانیہ ۸۸/۱ درمختار زکریا۵۷۷/۳معلم الحجاج ۲۲۶)

4. جو کپڑا بدن یا کسی عضو کی ہیئت وبناوٹ کے مطابق سلا گیا ہو ،جیسے: کرتا، پائجامہ، صدری، شیروانی، بنیان، انڈرویئر وغیرہ مرد کے لیے حالت احرام میں وہ کپڑا معتاد طریقہ پر پہننا جائز نہیں، منع اور موجب جنایت ہے۔ اور جو کپڑا بدن یا عضو کی ہیئت وبناوٹ پر نہیں سلا گیا ہے جیسے کنارے کنارے سلی ہوئی چادر یا سلی ہوئی لنگی تو اس کا پہننا بلاکراہت جائز ہے، اور اگر کسی مرد نے سلا ہوا کپڑا معتاد طریقہ پر نہیں پہنا یعنی جس طرح وہ کپڑا پہنا جاتا ہے اس طرح نہیں پہنا بلکہ یوں ہی جسم پر ڈال لیا جیسے کسی نے کرتا یا شیروانی جسم پر ڈال لی تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ فتوی: 1320-1303

دارالعلوم دیوبند

واللہ تعالی اعلم بالصواب

7/10/2021

اپنا تبصرہ بھیجیں