نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم، امّابعد!
وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً
(سورۃ آل عمران آیت نمبر ۹۷)
ایمان کی علامت:
اللہ نے اپنے بندے پر حج فرض کیا ہے ۔ حج ایک ایسا فریضہ ہے جو ایمان کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے ۔حضرت علیرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:’’جو آدمی باوجود پیسے کے حج نہیں کرتا تو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر اور اپنی اس بات کی تائید میں قرآن کی آیت تلاوت کی(جس کا ترجمہ یہ ہے) ’’اور اللہ کے واسطے لوگوں کے ذمے بیت اللہ کا حج کرنا ہے یعنی اُس شحض کے ذمہ جو کہ طاقت رکھے وہاں تک کے سبیل کی اور جو شخص منکر ہو تو اللہ تعا لیٰ تمام جہاں والوں سے غنی ہیں‘‘
(آل عمران: ۹۷)
اللہ کے نبی ﷺکی حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ۔چنانچہ حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد ہے:’’جس نے باوجود وسعت ا ور طاقت کے حج نہیں کیا وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر مرے حضرت محمدﷺکو اس کی پرواہ نہیں۔‘‘
(جامع ترمذی: ص ۱۶۷ جلد ۱ ،ابواب الحج)
اس لیے ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اس فریضے کی ادائیگی کی فکر کرے۔ تاکہ قیامت کے دن اس کی پیشانی کفر کے الفاظ سے محفوظ رہے۔
جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ حج کی دولت نصیب فرماتے ہیں ان کو چاہیے کہ اپنے حج کو حج مبرور بنائیں۔ حج مبرور اس حج کو کہتے ہیں جس سے صرف اللہ کی رضا مقصودہو۔ ریا اور نام ونمود مقصود نہ ہو ۔
اللہ کے رسولﷺنے ارشادفرمایا :’’حج مبرور کا بدلہ سوائے جنت کے کچھ نہیں۔‘‘
(مشکوٰۃ: ص ۲۲۱ کتاب المناسک بحوالہ بخاری ومسلم)
اللہ والے فرماتے ہیں کہ اگر انسان کی زندگی میں حج کے بعد ایسی تبدیلی پیدا ہو کہ جو گناہ پہلے کرتاتھا ان گناہوں کو چھوڑ دے اوردین پر جماؤ اور استقامت آجائے تو یہ اس کے حج مبرور ہونے کی علامت ہے ۔
حجر اسود کسوٹی ہے:
بعض اہل اللہ نے فرمایا:حجر اسود جنت کا پتھر ہے اور یہ کسوٹی ہے ۔ جس طرح کسوٹی سونے کے کھرا،کھوٹا ہونے کو ظاہر کردیتی ہے اسی طرح حجر اسود کا استیلام(اس کو چومنا یا ہاتھ لگانا یا اشارہ کرنا )انسان کے ایمان اور اس کے اندرکی چیز کو ظاہر کردیتاہے۔ اکثریہ دیکھا گیا ہے کہ بعض حاجی حضرات حج سے آنے کے بعد دھوکہ فریب، فراڈ اور گناہوں میں پہلے سے زیادہ مبتلا ہوجاتے ہیں اور لوگوں کو اس پر اشکال ہوتاہے کہ حج کے بعد تو یہ اور بگڑگیا۔
حالانکہ اُصولی بات یہی ہے کہ حج نے،استلام نے اس کی اصلیت ظاہر کردی اور پتہ چل گیا کہ اس کی حقیقت کیا تھی ؟ اسی طرح اگر حج کے بعد اعما ل میں ترقی ہورہی ہے اور الحمدللہ!داڑھی رکھ لی جبکہ پہلے داڑھی نہ تھی تو اندر کا ایمان ظاہر ہوگیا۔ اس لیے ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ حج کے بعد اس کے اندر نیکی اور خیر کے اعتبار سے کوئی نہ کوئی تبدیلی آنی چاہیے۔ ورنہ اس کے لیے بہت ہی خطرے اور نقصان کی بات ہوگی ۔
حج میں دکھاوا اور نمود سے جتنا بچاجائے اتنا ہی حاجی کے لیے اچھی علامت ہے۔ دیکھا یہ گیا کہ حج میں دکھاوا نمود زیادہ کیا جاتاہے۔ حاجی صاحب ہارپہنے ہوئے لوگوں کے مجمع میں ، ناز وانداز سے چلے جارہے ہیں جبکہ اعمال کے اعتبار سے حالت یہ ہورہی ہوتی ہے کہ نماز قضاہورہی ہے اس کی پروانہیں۔ لوگوں کو حاجی صاحب سے تکلیف ہورہی ہے اس کا کوئی خیال نہیں۔ اللہ معاف فرمائے !بعض مرتبہ ایسا بھی دیکھا گیا کہ عرفات اور منیٰ کی میدان میں حاجی صاحب کے خیمے سے گانوں اور سازوباجے کی آوازیں بلند ہورہی ہیں اور حاجی صاحب کو اس گناہ کا احساس اور ندامت بھی نہیں۔ بسوں میں بیٹھے بیٹھے کئی نمازیں قضاہوجاتی ہیں اور ان کی کوئی فکر نہیں ۔
بعض حاجی حضرات دکھلاوے اور نمود کے لیے لمبی چوڑی دعوتیں کرتے ہیں جس سے مقصود محض شہرت ، ریا کاری، لوگوں کو اپنا حاجی باور کرانا ہوتاہے، جیسے کہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے اپنے ایک وعظ میں فرمایا کہ وہ ایک حاجی صاحب سے ملنے گئے حاجی صاحب نے اپنے خادم سے یہ کہا کہ میرے پہلے حج والے کین سے پانی لے کر آؤ۔ مقصود یہ دکھلانا تھا کہ میں الحاج ہوں۔ میں نے کئی دفعہ حج کیے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے۔ حج کی عظمت ہمارے دلوں میں بٹھادے اور ہمارے حج کو حج مبرور بنادے!تاکہ دنیا وآخرت کے نقصان سے بچ جائیں!
Load/Hide Comments