انگشت زنی کرنے کا حکم

سوال: کیا عورت کے لیے انگشت زنی کرنا جائز ہے جبکہ شوہر صحبت کرنے پر قادر نہیں ہے اور خود بیوی کو استمناء بالید کرنے کو کہتا ہے تاکہ بیوی کو جنسی تسکین حاصل ہوسکے نیز عورت اپنے شوہر سے خلع بھی نہیں لینا چاہتی؟

الجواب باسم ملھم الصواب

انگشت زنی بھی مشت زنی کی طرح ناجائز اور گناہ ہے، اسلام نے جنسی خواہشات کو مکمل کرنے کے لیے جو جائز راستے متعین کیے ہیں اِن ہی میں خود کو محدود رکھنا چاہیے باقی تمام راستے ناجائز ہیں، ان کو قرآنِ عظیم میں حد سے تجاوز کرنا کہا گیا ہے۔

سورہ مؤمنون میں ارشاد ہوا ہے:

فمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ۔

ترجمہ: پھر جو کوئی ڈھونڈے اس کے سوا سو وہی ہیں حد سے بڑھنے والے۔

(المؤمنون:7)

اگر شوہر صحبت پر قادر نہیں ہے اور عورت کو گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے تو ایسی صورت میں شریعت مطہرہ نے عورت کے لیے خلع کا راستہ رکھا ہے، لیکن اگر خاتون خلع نہیں لینا چاہتی تو ایسی صورت میں کثرت سے روزے رکھنا شروع کردیں، اس سے شہوت کے تقاضہ میں کمی ہوگی اور گناہ سے بچنا آسان ہوگا۔

تاہم ایسی صورت میں اگر شوہر خود انگشت زنی کے ذریعے بیوی کی شہوت پوری کروادے تو کراہت کے ساتھ اس کی گنجائش ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

1۔ ’’عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ” سبعة لاينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولايزكيهم، ولايجمعهم مع العالمين، يدخلهم النار أول الداخلين إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه: الناكح يده۔۔۔۔”

ترجمہ:سات لوگ ایسے ہیں جن کی طرف روز محشر اللہ تبارک و تعالی نہ ہی نظر رحمت فرمائیں گے اور نہ ان کا تزکیہ فرمائیں گے اور نہ انہیں عالمین کے ساتھ جمع فرمائیں گے بلکہ انہیں پہلی مرتبہ جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ جہنم میں داخل فرمائیں گے الا یہ کہ وہ توبہ کرلیں جن میں سے ایک استمناء بالید کرنے والے ہیں۔۔الخ

(شعب الایمان:7/ 329)

2۔”بقي هنا شيء وهو أن علة الإثم هل هي كون ذلك استمتاعا بالجزء كما يفيده الحديث وتقييدهم كونه بالكف ويلحق به ما لو أدخل ذكره بين فخذيه مثلا حتى أمنى، أم هي سفح الماء وتهييج الشهوة في غير محلها بغير عذر كما يفيده قوله وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة إلخ؟ لم أر من صرح بشيء من ذلك والظاهر الأخير؛ لأن فعله بيد زوجته ونحوها فيه سفح الماء لكن بالاستمتاع بجزء مباح كما لو أنزل بتفخيذ أو تبطين بخلاف ما إذا كان بكفه ونحوه وعلى هذا فلو أدخل ذكره في حائط أو نحوه حتى أمنى أو استمنى بكفه بحائل يمنع الحرارة يأثم أيضًا”.

(الدر المختار:2/ 399)

3۔”ويجوز أن يستمني بيد زوجته وخادمته اهـ وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة أنه يكره ولعل المراد به كراهة التنزيه فلا ينافي قول المعراج يجوز، تأمل”.

(الدر المختار:4/ 27)

فقط۔ واللہ اعلم بالصواب

۲۳جمادی الاخری ۱۴۴۳ھ

27 جنوری 2022

اپنا تبصرہ بھیجیں