انحراف قبلہ کی صورت میں نماز کا حکم

سوال:اگر کوئی قبلے کے رخ کو ٹیڑھا سمجھ کر دو سال تک نمازیں پڑھتا رہا اب ان کو پتہ لگا کہ قبلہ تو سیدھا تھا ہم تھوڑا ٹیڑھا کر کے پڑھ رہے تھے تو کیا پچھلی نمازیں دھرانی پڑیں گی؟

الجواب باسم ملھم الصواب

واضح رہے کہ کعبہ کی جانب رخ کرکے نماز پڑھنا نماز کی شرائط میں سے ہے، اس کے بغیر نماز درست نہیں ہوتی،تاہم جو لوگ کعبہ کو نہ دیکھ رہے ہوں ان لوگوں نے اگر قبلہ سے معمولی طور پر ہٹ کر نماز پڑھ لی تو نماز درست ہو جائے گی۔ معمولی ہٹنے کا مطلب یہ ہے کہ عین قبلہ سے 45، 46 ڈگری کے اندر اندر انحراف پایا جائے۔

لہذا صورت مسئولہ میں اگر انحراف 45 ڈگری کے اندر اندر تھا تو نمازیں درست ہوگئیں، اور اگر 45 ڈگری یا اس سے زیادہ اِنحراف تھا تو نمازیں فاسد ہوگئیں، اب انھیں دوبارہ لوٹانا ہوگا۔

معارف القرآن میں ہے:

“اول یہ کہ اگرچہ اصل قبلہ بیت اللہ ہے جس کو کعبہ کہا جاتا ہے، لیکن یہ ظاہر ہے کہ اصل بیت اللہ کا استقبال اسی جگہ تک ہوسکتا ہے جہاں تک بیت اللہ نظر آتا ہے، جو لوگ وہاں سے دور ہیں اور بیت اللہ ان کی نظروں سے غائب ہے، اگر ان پر یہ پابندی عائد کی جائے کہ عین بیت اللہ کی طرف رخ کرو تو اس کی تعمیل بہت دشوار ہوجائے، خاص آلات وحسابات کے ذریعہ بھی صحیح سمت کا استخراج دور کے شہروں میں مشکل اور غیر یقینی ہوجائے اور شریعتِ محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلاۃ والسلام کا مدار سہولت و آسانی پر رکھا گیا ہے، اس لیے بجائے بیت اللہ یا کعبہ کے مسجدِ حرام کا لفظ رکھا گیا جو بہ نسبت بیت اللہ کے بہت زیادہ وسیع رقبہ پر مشتمل ہے، اس کی طرف رخ پھیرلینا دور دور تک لوگوں کے لیے آسان ہے”۔

(معارف القرآن، سورة البقرة: 144)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:

1۔ “فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ”.

(سورة البقرة: 144)

ترجمہ:’’آپ اپنا چہرہ مسجد الحرام کی جانب پھیر لیں اور جہاں کہیں بھی ہوں تو آپ اپنا چہرہ اسی کی طرف پھیر لیں‘‘۔

2۔ ’’عن ابن عباسٍ رضي الله عنهما مرفوعًا: البيت قِبلةٌ لأهل المسجد، والمسجد قِبلةٌ لأهل الحرم، والحرم قِبلةٌ لأهل الأرض في مشارقها ومغاربها مِن أُمَّتي”.

(روى البيهقي في السنن الكبرى (2/ 9)

ترجمہ:’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیت اللہ قبلہ ہے مسجد حرام والوں کا اورمسجد حرام قبلہ اہل حرم کا اور حرم قبلہ ہے روئے زمین پر بسنے والے تمام مسلمانوں کا خواہ وہ مشرق میں ہو یا مغرب میں میری تمام امت کا قبلہ یہی ہے‘‘۔

(رواہ البیھقی وقال تفرد به عمر بن حجص وھو ضعیف، نیل الاوطار: 2/169، وتفسیر ابن کثیر:1/202)

3۔ “شروط الصلاة هي ثلاثة أنواع: شرط انعقاد: كنية، وتحريمة، ووقت، وخطبة: وشروط دوام، كطهارة وستر عورة، واستقبال قبلة”.

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار):1/ 401)

4۔ “لو انحرف عن العين انحرافا لا تزول منه المقابلة بالكلية جاز، ويؤيده ما قال في الظهيرية: إذا تيامن أو تياسر تجوز لأن وجه الإنسان مقوس لأن عند التيامن أو التياسر يكون أحد جوانبه إلى القبلة”.

(شامي، کتاب الصلوۃ، باب شروط الصلوۃ، مبحث في استقبال القبلة: 1/428)

5۔ “ولغیرہ إصابة جهتها أي لغیر المکي فرضه إصابة جهتها وهو الجانب الذي إذا توجه إلیه الشخص یکون مسامتا للکعبة أو لهوائها، إما تحقیقا بمعنی أنه لو فرض خط من تلقاء وجهه علی زاویة قائمة إلی الأفق یکون مارا علی الکعبة أو هوائها، وإما تقریبا بمعنی أن یکون ذلك منحرفا عن الکعبة أو هوائها انحرافا لا تزول به المقابلة بالکیة بأن یبقی شيء من سطح الوجه مسامتا لها … فلو فرض مثلا خط من تلقاء وجه المستقبل للکعبة علی التحقیق في بعض البلاد، وخط آخر یقطعه علی زاویتین قائمتین من جانب یمین المستقبل وشماله لا تزول تلك المقابلة بالانتقال إلی الیمین والشمال علی ذلك الخط بفراسخ کثیرۃ‘‘. (البحرالرائق، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ: 494-495 /1)

6۔ ’’فللمکي إصابة عینها ولغیرها أي غیر معاینها إصابة جهتها بأن یبقی شيء من سطح الوجه مسامتا للکعبة أو لهوائها، بأن یفرض من تلقاء وجهه مستقبلها حقیقة في بعض البلاد الخ قال الشامی: فیعلم منه أنه لو انحرف عن العین انحرافاً لاتزول منه المقابلة بالکلیة جاز، ویوٴیدہ ما قال في الظهیریة: إذا تیامن أو تیاسر تجوز؛ لأن وجه الإنسان مقوس، لأن عند التیامن أو التیاسر یکون أحد جوانبه إلی القبلة‘‘۔

(شامی: 2/109)

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

22 ربیع الثانی1443ہ

28 نومبر2021ء

اپنا تبصرہ بھیجیں