ہاشمی کا غیر ہاشمی سے نکاح

سوال:ھاشمی نسب کا رشتہ غیر ھاشمی سے رشتہ ازدواج میں منسلک کرنے کا کیا حکم ہے وضاحت کر دیجیے۔

الجواب باسم ملھم الصواب

اصل سوال کے جواب سے پہلے تمہید کے طور پر چند باتوں کا معلوم ہونا مناسب ہے۔

(۱)رشتہ نکاح کے اعتبار سے لوگوں کو تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

۱۔ قریش یعنی وہ تمام عرب جن کا سلسلہ نسب ’’نضربن کنانہ‘‘ سے ملتا ہے۔ خواہ وہ ہاشمی ہوں، صدیقی ہوں، عثمانی ہوں یا فاروقی ہوں۔ یہ سب ایک دوسرے کے کفو ہیں۔

۲۔ قریش کے علاوہ باقی اہل عرب۔ یہ حضرات ایک دوسرے کے برابر اور آپس میں کفو ہیں۔

۳۔ تیسرا گروہ غیر عرب یعنی عجم کا ہے۔ یہ سب آپس میں برابر ہیں۔ ان میں مزید کوئی درجہ بندی نہیں ہے۔ الا یہ کہ عرف میں اس کا اعتبار کیا جانے لگے تو معتبر ہوگا۔

لما في رد المحتار (۳؍۹۵):

(فقریش) القرشیان من جمعھما اب ھو النضر بن کنانة ۔۔۔۔۔ (بعضھم اکفاء بعض) ای لا تفاضل فیما بینھم من الھاشمي والنوفلي والتیمي والعدوي وغیرھم”.

وفي المغنی لابن قدامة (۷؍۳۷۴) :

“قال ابو حنیفة لا تكافى العجم العرب ولا العرب قریش وقریش کلھم اکفاء”.

وفي الشامیة (۳؍۸۷)

“فالنسب معتبر في العرب فقط”.

(۲) نکاح میں نسب کے اندر برابری کا اعتبار عورت کی طرف سے ہوتا ہے یعنی اگر لڑکی اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتی ہو تو کسی ایسے شخص کا وہ کفو نہیں ہے جو اس سے کم درجہ کا ہو۔ البتہ اگر اولیاء اور لڑکی کی رضامندی سے غیر کفو میں نکاح کر دیا جائے تو شرعاً ایسا نکاح منعقد ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اگر سیدہ زادی کا نکاح غیر سید سے اولیاء اور لڑکی کی رضامندی سے کردیا جائے تو جائز ہے۔ اگر اولیاء کی اجازت کے بغیر بالغہ سیدہ لڑکی اپنا نکاح غیر کفو (غیرسید) میں کرلے تو ظاہر الروایۃ کے مطابق یہ نکاح بھی درست ہے۔ جبکہ دوسرا قول یہ ہے یہ نکاح اولیاء کی اجازت پر موقوف رہے گا۔

لما في الھندیة:

“الکفاء ۃ معتبرۃ فی الرجال للنساء للزوم النکاح ولا تعتبر فی النساء للىرجال”.

(۲؍۱۵)

وفي بذل المجھود:

“قال ابو حنیفة رحمه الله: لا یعتبر الولی في البالغة مطلقا لحدیث الثیب”.

(۲؍۲۵)

وکذا في البحر الرائق (۳؍۱۱۰)

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں