حجام کی کمائی اورقربانی کاحکم

  دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:164

الجواب حامدا ومصلیاً

  1. حجام کی کمائی کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ شیو بناتا ہو یا داڑھی ایک مشت سے کم کرتا ہوتو ان دونوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کمائی حرام ہے،اور ان دونوں کاموں کے علاوہ اگر وہ جائز  کام کرتا ہے مثلا سر کے بال کانٹنا ، خط بنانا،سر مونڈنا تو ان کاموں سے حاصل ہونے والی آمدنی حلال ہے ۔

لما فی المبسوط للسرخسی۔

  ولا تجوز الاجارۃ علی شیئ من الغناء ولمزامیر الطبل وشیئ من اللھو ؛لانہ معصیۃ والاستئجار علی المعاصی

    باطل فانہ بعقد لاجارۃ یستحق المعقود علیہ شرعاولا یجوز ان تستحق علی المرءفعل بہ یکون عاصیا شرعا،

  1. اگر حجام کے اتنی مقدار حلال کی ہو جسکے عوض وہ قربانی میں شریک ہو رہا ہے توا س کے ساتھ قربانی کرنے کی گنجائش ہے،

لما فی در لمختار:

          (ولو خلط السلطان المال المغصوب بمالہ ملکہ فتحب الزکاۃ ویورث عنہ) لان الخلط استہلاک اذا لم یمکن تمییزہ عند امام ابی حنیفہ، وقولہ ارفق اذ قلما یخلو مال عن غصب۔

  1. اگر حجام حرام رقم سے قربانی میں شریک ہو رہاہے تو اسے شریک نہیں کرنا چاہیےاگر البتہ کسی نے شریک کرلیا تو ایسی صورت میں بعض علماء کے نزدیک ایسے شخص کے سمیت دوسرے شرکاء کی بھی قربانی درست نہیں ہوگی جبکہ بعض علماءکے نزدیک دوسرلے شرکاء کی قربانی درست ہوجائے گی اور جس شخص کا حلال نہیں ہے اسکی قربانی بھی ذمہ سے اتر جائے گی لیکن اس کو قربانی کا ثواب نہیں ملے گاعبادت میں احتیاط کاتقاضہ یہ ہے کہ پہلے قول پر عمل کیا جائے ،تاہم اگر مجبوری میں دوسرا قو ل پر عمل کیا تو اس کی بھی گنجائش ہے البتہ اگر شریک کرتے وقت یقینی طور پر معلوم نہ ہو  کہ رقم اسکی حرم ہے تو اس صورت میں باقی شرکاء کی قربانی درست ہوجائے گی (ماخذۃ التبویب)

لما  فی در لمختار

      وان مات  احدالسبعۃ المشترکین فی البدنۃ وقال الورثہ اذبحو عنہ وعنکم صح عن لکل استحسانا  لقصد القربۃ من الکل ولو ذبحوھا بلا اذن الورثہ لم یجزھم لان بعضھا لم یقع قربۃ وان کان شریک السنہ نصرانیا  او مریدا اللحم لم یجز عن واحد منہم  لان الاراقۃ لا تتجزا ھدیہ لما مر۔

وفی رد المختار

    وقولہ وان کان شریک السنۃ نصرانیا الخ وکذا اذا  کان عبدا او مدبرا یرید الاضحیۃ لان نیتہ باطلہ لانہ لیس من اھل ھذہ القریۃ فکان نصیبہ لحما فمنع الجواز اصلا بدائع۔

وفی رد المختار

لو اخرج زکاۃ المال الحلال من مال حرام ذکر فی الوھبانیہ انہ یجزئ عندالبعض۔

  1. 5 ۔مذکور ہ دونوں صورتوں میں بھی  حجام کیساتھ قربانی کرن جائز ہے۔واللہ تعالی اعلم
  2. عزیزطارق بلوانی غفرلہ ولوالدیہدارالافتاء جامعہ  دارالعلوم کراچی

 پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیے لنک پرکلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/652066391829276/

اپنا تبصرہ بھیجیں