اجتہاد اور اس کی شرائط
“اجتہاد ” جہد سے نکلا ہے جس کے معنیٰ ہے انتہائی کوشش کرنا ” مجتہد کو بھی مجتہد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ اپنی پوری فکر ی طاقت حکم شرعی کے استخراج واستنباط میں صرف کردیتا ہے۔ علامہ عبدالحکیم لکھنویؒ نو رالانوار کے حاشیہ الاقمار کے صفحہ 246 پر اجتہاد شرعی کی تعریف یوں فرماتے ہیں ۔ ” وھو بذل الفقیہ طاقتہ فی استخراج الحکم الشرعی النظری بحدیث یحس عن نفسہ العجز عن المزید علیہ “
یعنی وہ فقیہ کا اپنی فکری طاقت کو حکم شرعی نظری کے استنباط میں اس طرح خرچ کرنا ہے کہ اس سے زیادہ فکری طاقت کے استعمال سے وہ اپنے آپ کو عاجز محسوس کرے ۔
اگر کوئی ایسا مسئلہ سامنے آئے کہ کسی سابقہ مجتہد نے اس بارے میں اجتہاد نہ کیا ہو اور وقت بھی ایسا ہو کہ اس کے علاوہ کوئی مجتہد نہ ہو تو ایسی صورت میں اس مجتہد پر اس مسئلہ میں اجتہاد کرنا فرض عین ہوجاتا ہے چاہے وہ مسئلہ پیش آچکا ہو یا مستقبل میں پیش آنے کی امید ہو فی ا لحال پیش نہ آیا ہو اور اگر اصحاب اجتہاد متعدد ہوں توا جتہاد اس وقت فرض عین ہوتا ہے جب وہ مسئلہ پیش آجائے یا کوئی سائل اس کے بارے میں سوال کر لے ،اگر وہ مسئلہ پیش نہ آیاہو توا جتہاد فرض کفایہ ہے ۔ (قمرا لاقمار : صفحہ 246 ملحضا )
دور حاضر کا ایک المیہ :
عہد حاضر میں لفظ “اجتہاد ‘ کے ساتھ جو ظلم اور ناانصافیاں اس امن وانصاف پسند دور میں ہوتی جارہی ہیں اس کی نظیر شاید ہی ہو۔ امن وانصاف کا درس دینے والے مغرب زدہ اس لفظ “اجتہاد ” کے ساتھ جو بے عدولیاں کرتے نظر آرہے ہیں اس سےا ن کے انصاف پسندی اور غیر جانبداری کا پردہ چاک ہوگیا ہے۔ گلی ،بازار ، کوچوں ، چوراہوں اور میڈیا پر یہ طبقہ جس طرح اجتہاد کرنا نظر آتا ہے ۔ اس نے “اجتہاد ” جیسے عظیم المرتبت کام کو بازیچہ اطفال بنا کر رکھ دیا ہے ۔ قرآن حدیث ہو یا فقہ اسلامی، حدود آرڈینیس ہو یا قربانی اور زکوۃ کے احکام ، قانون حجاب نساء ہو یا سود جیسا بھیانک جرم ، نماز، ہو یا حج ، غرض عقائد سے لے کر عبادات اور معاملات وتجارت ان سب میں لفظ “اجتہاد ” کو تختہ مشق بنایا جارہا ہے ، علوم دنیویہ کی درسگاہوں سے فارغ ہونے والے پروفیسرز، گریجوایٹس اور ایم اے اسلامیات کرنے والے مجتھدانہ صلاحیتوں کے مدعی نظر آتے ہیں،شکوہ تو سادہ لوح عوام سے ہے کہ وہ جیسی ہوشیاری اور عقلمندی کا ثبوت دنیوی معاملات میں دیتے ہیں ، دینی معاملات میں وہ اپنی عقل استعمال کیوں نہیں کرتے ؟
علامہ صابونی نے اپنی کتاب “التبیان فی علوم القرآن ” میں شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ ؒ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ “نصف طبیب یفسد الابدان ونصف عالم یفسد الادیان ” جس کا ترجمہ اردو محاورہ میں یہ مقولہ ہے ” نیم حکیم خطرہ جان نیم ملا خطرہ ایمان ” ( التبیان : صفحہ 244) زیر بحث مسئلہ کو سمجھنے کے لیے یہ مقولہ اور مثال بہت مناسب ہے ،مثال ایک ایسی چیز ہے جس سے دعوٰی کی بھر پور وضاحت ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم اور دیگر صحف سماویہ اور کلام انبیاء وحکماء مثالوں سے بھرا نظر آتا ہے تو ہم بھی یہاں مثال سے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ جس طرح ایک نیم حکیم اور ڈاکٹر ( بلکہ ہر شعبہ میں ادھوری قابلیت والا شخص ) غیر معتبر ہوتا ہے اس سے آپ کو اس معاملہ سے متعلق نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں غلط علاج کر کے جان کو خطرہ میں نہ ڈالدے اور کام سمیٹنے کے بجائے بڑھانہ دے ، اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر دین سے متعلق ادھوری معلومات اور ناقص صلاحیت والا شخص بھی غیر معتبر ہے کہ وہ کہیں آپ کے ایمان وعقیدہ جیسی چیز کو خراب نہ کردے جو کہ جان سے زیادہ قیمتی ہے۔
ایک غیر قانونی حکیم اور ڈاکٹر سے اگر کبھی کسی کو فائدہ پہنچ بھی جائے تو اس وقتی فائدے کی وجہ سے اسے مستقل معالج پھر بھی نہیں بناسکتے کیونکہ اگر آج اس سے آپ کو یا کسی کو اکا دکا فائدہ حاصل ہوگیا ہے تو کل اس سے اپنے ناقص ہونے کی وجہ سے ضرر عظیم کا اندیشہ لاحق ہوسکتا ہے ،بالکل اسی طرح اگر آپ کو کوئی پروفیسر ، گریجوایٹ یا مغربی تعلیم یافتہ قرآن وحدیث کی تفسیر وترجمانی کرتا ہوا نظر آئے اور آپ اپنی علم دین کی تشنگی بجھانے کی غرض سے اپنی ناواقفیت کی وجہ سے اس کی ملمع ساز تقریر وبیان کے گرد اب میں پھنس گئے اور کچھ معلومات مہیا ہوگئیں تو آپ اسے ” وقتی فائدہ ” ہی سمجھئے اور اس پروفیسر صاحب کے ناقص علم پر نچھاور نہ ہوجائیے ۔ اگر آپ نے یہ غلطی کر لی تو اس کی صحبت آپ کو کسی بھی وقت ضلالت کی عمیق اور گہری کھائی میں پھینک سکتی ہے جس سے رہائی پانا شاید انتہائی دشوار مسئلہ ہو،کیونکہ ایک نیم طیب اپنی اصلیت سے واقف ہونے کی وجہ سے شاید کبھی شرمندہ ہو کر اپنی غیر قانونی طبابت سے باز آسکتاہے لیکن یہ مجتہد مطلق ہونے کے مدعی کبھی اپنی نااہلی اور نالائقی کو تسلیم نہیں کرینگے اور بغیر توبہ کے اسی گمراہی پر موت آئے گی ،(اعاذ اللہ منہا)
اور پھر یہ شعر صادق آئے گا۔
ہم تو ڈوبے ہیں صنم
تم کو بھی لے ڈوبیں گے
دوستو ! اجتہاد کا دروازہ کھلا ہوا ہے لیکن ان مسائل میں جو نئے نئے پیش آرہے ہیں ، جن مسائل کا حل سابقہ مجتہدین کرچکے ہیں ان میں اجتہاد نہیں کرنا ہے اور یہ اجتہاد بھی ہر کس وناکس ہماوشما نہیں کرینگے بلکہ اس کے لیے چند مخصوص شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔ جس طرح ہر فن کے ماہرین اپنے اپنے فن میں مہارت کی بنیاد وشرائط وعلامات پر رکھتے ہیں اسی طرح علوم دینیہ کے پاسبانوں نے اجتہاد کے لیے بھی شرائط رکھی ہیں جس شخص میں یہ شرائط مفقود ہوں وہ کبھی اجتہاد کا دعویٰ نہ کرے ۔
شرائط اجتہاد :
1)قرآن کریم کی آیات احکام یعنی وہ آیات جنہیں احکام چرعیہ کا ذکر ہے ان پر لغوی اور شرعی دونوں اعتبار سے معانی ومفاہیم پر عبور۔ یہ آیات (500) ہیں جنہیں ملاجیون نے اپنی کتاب التفسیرات الاحمدیہ میں یہ جمع کیا ہے ، یاد رہے کہ ان آیات کے معانی ومفاہیم پر عبور سے مراد ان تمام اقسام وانواع پر مہارت حاصل کرنا ہے جنہیں علماء اصول فقہ نے کتب اصول فقہ میں جمع کردیا ہے ۔
2)ذخیرہ حدیث میں سے وہ احادیث جن کا تعلق احکام سے ہے جن کی تعداد بقول ملا جیون ؒ کے 3000 تین ہزار ہے مکمل دسترس ، اس طرح احادیث کع موقع محل پر منطبق کرنے میں مہارت حاصل ہو ۔
3)اجماعی مسائل کا علم نیز اجماع کے طریقوں ، فیصلوں اور موجود ماحول کے مطابق ان سے کام لینے کے طریقہ سے واقفیت ۔
4)قیاس کے وجود اور طریقے کا علم جن کی تفصیل قیاس،استحسان اورا ستدلال وغیرہ کے ابواب میں ذکر کی جاتی ہے ۔
6)فقہی اصول وکلیات کا علم ۔
7)فقہی جزئیات اور ان کے موقع و محل سے واقفیت۔
8)مذکورہ بالا تمام علوم چونکہ عربی زبان سے تعلق رکھتے ہیں اس بناء پر قدیم عربی زبان میں مہارت ضروری ہے۔ ( بحوالہ عقد الجید )
9) قومی وملکی مصالح اورحالات زمانہ کے تقاضوں سے واقفیت ، مقولہ ہے “من جھل باھل زمانہ فھو جاھل “
10)اختلاف صحابہ اور اختلاف ائمہ سے استفادہ اور اس کو منطبق کرنے کی صلاحیت ۔
11)مقاصد شریعت اور اس کے اسرار رموز سے واقفیت ۔
12) وہ علم وادراک جس ک ا تعلق قلب سے ہے یہ ایک باطنی قوت ہے جسے اصولین قلب کی آنکھ سے تعبیر کرتے ہیں ۔
یہ اجتہاد کی شرائط ہیں جو کہ نو راالانوار ، ملا جیون : صفحہ 246۔الاجتہاد فی الشریعت الاسلامیہ امام محمد بن سعود صفحہ 27 المسئلۃ الرابعہ فی شروط الاجتہاد / اجتہاد للشیخ تقی امینی صفحہ 309 سے ماخوذ ہیں ۔
آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر قسم کے فتنے سے اپنی امان میں رکھے : آمین
تحقیق وتقلید
آج کل ہر طرف محققین اور متجددین کا شور سنائی دے رہ اہے ۔ جرائد ہوں یا رسائل ، ریڈیو ہو یا کوئی ٹی وی چینل پورے میڈیا پر انہیں کا گویا قبضہ نظر آرہا ہے ، شاید اس سے پہلے کبھی اتنے مجتہدین اور مذہبی اسکالر ز کی پود کاشت نہ ہوئی ہوگی ۔ ان کا تو ایک سیلاب امنڈ پڑ اہے ، دین کی از سر نو تشریح ہو رہی ہے ، دینی مسائل نت نئی تحقیقات اور ریسرچز (researches) ہو رہی ہیں، دین سے دقیانوسیت ، قدامت پرستی اور انتہا ٰ پسندی کا لیبل اتارا جارہا ہے امت کے آخری لوگ اپنے اسلاف اور پہلے لوگوں کو تنگ نظر ی اور قرآن وحدیث سے ناواقفیت کا طعنہ تھوپ رہے ہیں ، تجدید دین کے نام پر دین اور اصول دین کی بیخ کنی اور ان کا استیصال کیا جارہا ہے ، امت کے متفقہ اورا جماعی مسائل پر اپنی انفرادی آراء اور فردات کا تپشہ چلایا جارہا ہے ۔
یہ سب آزادی فکر کے حامی لوگ ہیں ،پچھلی ایک ڈیڑھ صدی کے دوران امت محمدیہ علی صاحبہا الف تحیۃ وسلاما میں آزادی فکر اور ترک تقلید کی جو تحریکیں جنم میں آئیں یہ سب انہیں کی لگائی ہوئی فصل کاشت ہورہی ہے ۔ یہ لوگ ، نام نہاد متجددین ، محققین اور مذہبی اسکالرز مذہب اور دین کی آڑ میں اسلام کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا چاہتے ہیں اسلام کی لائی ہوئی سہل اور فطری تعلیمات کو مسخ کر کے دین عیسوی کے نام نہاد متجدد ” پولس ” کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہیں ۔
آئیے ! ہم حقیقی محقق کا مفہوم سمجھتے ہیں اور پھر ان نام نہاد محققین کا جائزہ لیتے ہیں ۔
محقق کے معنیٰ : شیخ الاسلام حضرت مولا نا مفتی تقی عثمانی صاحب مد ظلہ رقمطراز ہیں :
تحقیق کے معنیٰ ہے طلب حق، محقق کی حیثیت جج جیسی ہے کہ بغیر جانبداری کے دونوں طرف کے تمام دلائل اور گوشوں کو دیکھ کر جو وزنی لگے اسے ترجیح دے یا بالفاظ دیگر محقق کا کام نظریہ قائم کر کے اس کے لیے دلائل ڈھونڈنا نہیں ہوتا بلکہ دلیلیں دیکھ کر نظریہ قائم کرنا ہوتا ہے ۔ ” ( جدت پسندی )
اس معنی کو پیش نظر رکھ کر ہمارے ان نام نہاد متجدین کے طرز اور آئین تجدد کا جائزہ لیں تو حقیقت بالکل برعکس دکھائی دیتی ہے، ان کا یہ طرز تحقیق ہوتا ہے کہ پہلے سے ذہن میں یہ سوچ لیں گے کہ ہماری ضروریات کیا ہیں ؟ ان ضروریات کو متعین کر کے پھر قرآن وسنت کی طرف رخ موڑتے ہیں ، اب جو جو آیت وحدیث اپنے نظریہ کے موافق دیکھی اسے قبول کرلیں گے اور جو ناواقف نظر آئی تو وہ چاہے کتنی ہی ان کے نظریہ سے مخالفت رکھتی ہو صریح سے صریح آیت اور حدیث کو اپنے نظریے تلے روندتے چلے جائیں گے، ظاہر ہے کہ ایسے طرز تحقیق کی بھٹی سے۔ جو جدید اور انوکھی تعبیر اور تحقیق ہے، دینی مسائل نکلیں گے وہ دین تو کیا علم کے بھی اصولوں کے خلاف ہوں گے ۔اسے تحقیق اور ریسرچ کا نام دینے کے بجائے ” تدسیس ” اور ” تحریف ” ہی کا نام دے سکتے ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ ان کا طرز تحقیق دلیل دیکھ کر نظریہ قائم کرنا نہیں بلکہ نظریہ کو دیکھ کر اس کے دلائل ڈھونڈنا ہوتا ہے ۔
قارئین کرام ! کیا اسے غیر جانبداری کہتے ہیں کیا اسے تحقیق کہتے ہیں ؟
اصل بات یہ ہے کہ ہمارے اذہان وافکار مغرب سے انتہائی مرعوب ہوگئے ہیں بس جو طرز مغرب میں ہوگا جو نظریہ اور عمل مغرب میں ہوگا ہم اسی طرف اندھا دھند چلتے چلتے جائیں گے ۔ حتیٰ کہ اگر کسی مغرب زدہ کو دیکھ اس کہ پینٹ الٹی پہنی ہوئی ہے ہمارے یہ مغرب سے مرعوب مسلمان بھی اسی کی تقلید شروع کردیں گے شاید یہ بھی کوئی یا فیشن ہوگا ، یہاں آکر آزادی آزادی کی رٹ لگائے رکھنے والے اپنا جائزہ لیں اور بتائیں کہ ذہنی غلام کون ہیں ؟ ہم یا آپ؟ دوسروں کو وسیع النظری اور روشن خیالی کی تعلیم دینے والے سوچیں کہ تنگ نظر کون ہیں ؟ ہم یا آپ ؟
دوستو ! دین میں دخل اندازی ہر کس وناکس کا کام نہیں اس کے لیے بڑے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں ۔ (1)تقویٰ (2) قرآن (3) حدیث کی وہ نصوص جن میں احکام کا ذکر ہے پریوار عبور (4) امت کے متفقہ اور اجماعی مسائل کا علم۔ یہ اور چند اور شرائط ایسی ہیں جن میں کامل دسترس اور عبور کے بغیر دین میں رائے زنی شریعت اور دین کی توہین اور ناقابل معافی جرم ہے ، اللہ ہمیں اور آپ سب کو اس جرم سے اپنے امان میں رکھے ۔