انشورنس کے پیسے کا حکم

فتویٰ نمبر:3021

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

السلام علیکم!

میرےشوہر نے پالسی لی ہوئی تھی ۲۰ سال پہلے اب وہ پوری ہو گئی ہے۔ کیا اس کا پیسہ استعمال کر سکتے ہیں؟

تنقیح : مروجہ انشورنس یا تکافل کمپنی میں

جواب: جی، اسٹیٹ لائف میں

و السلام: 

الجواب حامدا و مصليا

مذکورہ انشورنس میں مدت پوری ہونے پر اپنی اصل جمع شدہ رقم اضافہ کے ساتھ واپس ملتی ہے۔ اضافی رقم سود ہی ہے (۱) اور اس کو اپنے استعمال میں لانا یا اپنی ذات پر خرچ کرنا سخت ناجائز اور حرام ہے۔ اس سود کو نادار فقیروں میں بغیر نیتِ ثواب کے تقسیم کرنا ضروری ہے ۔(۲)، (۳) 

ہاں! اپنی اصل جمع کردہ رقم استعمال کرنا جائز ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ اور اگر ایسا نہیں کرتے (یعنی سود سے باز نہیں آتے) تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ، ہاں اگر توبہ کرلو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔ (سورۃ بقرۃ: ۲۷۹)

 (۱) کل قرض جر منفعۃ، فہو ربا۔ (کنز العمال: حدیث نمبر ۱۵۵۱۲)

 (۲) والحاصل أنہ إن علم أرباب الأموال وجب ردہ علیہم ، وإلا فإن علم عین الحرام لا یحل لہ، ویتصدق بہ بنیۃ صاحبہ ۔ (الدر المختار: ۷ / ۳۰۱ )

 (۳) صرح الفقہاء بأن من اکتسب مالاً بغیر حق ، فأما إذا کان عند رجل مال خبیث ، فأما إن ملکہ بعقد فاسد ، أو حصل لہ بغیر عقد ولا یمکنہ أن یردہ إلی مالکہ ، ویرید أن یدفع مظلمۃ عن نفسہ ، فلیس لہ حیلۃ إلا أن یدفعہ إلی الفقراء ۔ (۱بذل المجہود: ۱ / ۳۵۹؛ فتاویٰ بنوریہ، رقم الفتویٰ: ۸۰۳۸)

فقط ۔ واللہ اعلم 

قمری تاریخ: ۱۹ ربیع الثانی ١٤٤٠ھ

عیسوی تاریخ: ۲۸ دسمبر ٢٠١٨

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں