انتخاباتی سلسلہ میں کسی خاص پارٹی کو ووٹ کےمعاملے میں ترجیح دینی چاہیے یا شخصیت کو

بسم الله الرحمن الرحيم

الجواب حامدا ومصليا و مسلما

اصل جواب سے پہلے تمہید کے طور پر یہ سمجھ لینا مناسب ہے کہ ہمارا ووٹ شرعاً تین حیثیتیں رکھتا ہے۔ (۱) شہادت (۲) سفارش (۳) حقوق مشترکہ کی وکالت۔ تینوں صورتوں میں جس طرح قابل، اہل اور نیک و صالح آدمی کو ووٹ دینا موجب ثوابِ عظیم ہے اور اس کے ثمرات اس کو ملنے والے ہیں، اسی طرح نااہل اور غیر متدین شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے، بری سفارش بھی اور ناجائزوکالت بھی اور اس کے تباہ کن اعمال بھی اسکے اعمال نامہ میں لکھے جائیں گے۔ اس لئے امیدوارمیں کم از کم درج ذیل صفات دیکھی جائیں۔

(١) امیدوار عقیدے کے اعتبار سے پکا مسلمان ہو اور کھلے عام فسق و فجور میں مبتلا نہ ہو۔

(٢) دیندار ہو اور اہلِ دین و شعائرِدین کا احترام کرتا ہو۔

(٣) اسلامی حمیت کا حامی ہو اور ملک میں اسلامی قوانین نافذ کرنے کا جذبہ رکھتا ہو۔

(٤) نظام حکومت کو سمجھتا ہو اور قوم و ملت کی خدمت کا جذبہ رکھتا ہو۔

(مأخذہ: جواہرالفقہ: ج ۲ ص ۲۹۷ تا ۲۹۹، تبویب: ۴/۱۴۲۰، مزید تفصیل کےلئے جواہر الفقہ ملاحظہ فرمائیں)

اس تمہید کے بعد آپ کے اصل سوال کے جوابات درج ذیل ہیں۔

(١) دونوں جماعتوں کے منشور کو دیکھا جائے چناچہ جس جماعت کا منشور اور طریقِ کار دین و ملک کے مفاد میں ہو اس جماعت کے امیدوار کو ووٹ دیا جائے اگرچہ اس جماعت کا امیدوار اپنے مد مقابل امیدواروں کی بنسبت زیادہ بہتر نہ ہو، کیونکہ اس میں در حقیقت اس کی جماعت کی تقویت ہے، اور اگر دونوں کا منشور ایک طرح کا ہے تو اس صورت میں زیادہ متدین اور اہل شخص کو ووٹ دیں اور اگر امیدوار اور اس کی جماعت کا منشور ہر اعتبار سے برابر ہے تو ایسی صورت میں کسی ایک کو بھی ووٹ دیا جاسکتا ہے۔ ( ماٗخذہ تبویب: ۱۴٢۰/۴)

لقول الله عز وجل: [النساء : ۸۵]

{من يشفع شفاعة حسنة يكن له نصيب منها ومن يشفع شفاعة سيئة يكن له كفل منها وكان الله على كل شيء مقيئا }

لقول الله عز وجل: [البقرة : ۲۸۳] .

 { وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ }

لقول الله عز وجل: [المائدة : ۲]

{ وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان واتقوا الله إن الله شديد العقاب }

فيض القدير – (٦/٢٧٥)

(٢)کسی کو ووٹ نہ دے کر ضائع کرنا بھی ناجائز اور شرعی جرم ہے، کیونکہ جہاں خیر کی امید نہ ہو وہاں شر کو کم کرنے کی کوشش مستحسن ہے۔ (مأخذہ:جواہرالفقہ: ۲/۳۰۰)

لقول اللہ عز و جل : وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ (سورة البقرة: 283)

عمدة القاري – (باب ما قيل في شهادة الزور)

لقوله تعالى ولا تكتموا الشهادة ومن يكتمها فإنه آثم قلبه والله بما تعملون عليم ( البقرة ۲۸۳ ) هذا التعليل في محله أي ولا تخفوا الشهادة إذا دعيتم إلى إقامتها ومن كتمانها ترك التحمل عند الحاجة إليه قوا، فإنه آثم قلبه ( البقرة ۲۸۳ ) أي فاجر قلبه وخصه بالقلب لأن الكتمان يتعلق به لأنه يضمره فيه فأسند إليه والله بما تعملون عليم ( البقرة ۲۸۳) أي يجازي على أداء الشهادة وكتمانها۔

(٣) ایسی جماعتوں کو ووٹ نہ دیا جائے جن سے دین اور ملک کے بارے میں خیر کی توقع نہ ہو کیونکہ بعض جماعتیں تو لادینی اور اسلام مخالف عناصر کو فروغ دیتی ہیں اور بار بار کے تجربات اور مشاہدات اسکے شاہد ہیں۔

التفسیر المنیر للزحیلی ۔ (۶/۶۲)

وفي الجملة انفردت سورة المائدة ببيان أصول مهمة في الإسلام هي: أوجب الله على المؤمنين إصلاح نفوسهم، وأنه لا يضرهم إن استقاموا ضلال غيرهم، وطريق الإصلاح الوفاء بالعقود، وتحريم الاعتداء على الآخرين، والتعاون على البر والتقوى وتحريم التعاون على الإثم والعدوان، وتحريم موالاة الكفار، ووجوب الشهادة بالعدل، والحكم بالقسط والمساواة بين المسلمين وغيرهم. والله تعالی اعلم بالصواب

ضیاء الدین مانسہروی

 دار الافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

۲۹ جمادی الاولی ۱۴۳۳ھ

٢٢ اپریل ٢٠١٢ ء

اپنا تبصرہ بھیجیں