جہاں عشا کا وقت نہ آنے تو اس جگہ عشا کی نماز کا حکم ۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

سوال:وہ علاقے جہاں سورج کچھ وقت (1،2 گھنٹوں) کے لیے غروب ہوتا ہے وہاں مغرب کے بعد عشا کی نماز فجر کی نماز کے وقت کے داخل ہونے سے پہلے کس ترتیب سے ادا کی جائے؟”

تنقیح

**ان علاقوں میں عشا کا وقت آتا ہے یا نہیں آتا؟

جواب

**نہیں آتا۔

وعلیکم السلام و رحمة الله و بركاته

الجواب باسم ملهم الصواب

وہ علاقے جہاں سورج کچھ وقت کے لیے غروب ہوتا ہے وہاں غروب کے فوراً بعد مغرب پڑھ کر کچھ دیر انتظار کرے اور عشاء پڑھے پھر طلوع سے پہلے پہلے فجر کی نماز ادا کر لی جائے۔اس لیے کہ دن رات میں پانچ وقت کی نماز فرض ہوئی ہے، لہذا پانچویں نماز ترک کرنا درست نہ ہوگا۔

————————-‐———————

حوالہ جات :

حدیث سے :

1… عن النواس بن سمعان رضی اللہ تعالٰی عنہ قال: ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم الدجال فقال: إن يخرج وأنا فيكم فأنا حجيجه دونكم إلى قوله……. قلنا يا رسول الله و ما لبثه فى الأرض قال: اربعون يوماً يوم كسنة و يوم كشهر و يوم كجمعة و سائر أيامه لأيامكم،قلنا يا رسول الله فذالك اليوم الذى كسنة أيكفينا فيه صلاة يوم ؟ قال: لا، أقروا له قدره۔۔

ترجمہ:

**نواس بن سمعان رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں کہ، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر کیا ۔پھر فرمایا:”اگر میرے ہوتے ہوئے وہ نکل آیا، تو میں خود اس کا مقابلہ کروں گا۔ہم نے عرض کیا، یا رسول اللّٰہ!وہ زمین پر کتنی دیر رہے گا۔ تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نےفرمایا:چالیس دن۔۔ ایک دن سال کے برابر، اور ایک دن مہینے کے برابر، اور ایک دن ہفتے کے برابر، اور باقی سارے ایام تمھارے دنوں کی طرح ہوں گے۔ ہم نے کہا، یا رسول اللّٰہ! تو جو دن سال کے برابر ہو گا، کیا اس میں ہمیں ایک ہی دن کے اعتبار سے نماز پڑھنی ہوگی؟ آپ نے فرمایا: نہیں،بلکہ تم اسی کے بقدر اندازہ لگا لینا۔”

(سنن ابي داود،باب خروج دجال: حديث4321)

——–‐————————————–

کتب فقہ سے:

1… و فاقد وقتھاكبلغار،فإن فيها بهما،فيقدر لهما،ولا ينوى القضاء لفقد وقت الاداء

(الدر المختار: 18/2)

2…”قَالَ الرَّمْلِيُّ فِي شَرْحِ الْمِنْهَاجِ: وَيَجْرِي ذَلِكَ فِيمَا لَوْ مَكَثَتْ الشَّمْسُ عِنْدَ قَوْمٍ مُدَّةً. اهـ. ح. قَالَ فِي إمْدَادِ الْفَتَّاحِ قُلْت: وَكَذَلِكَ يُقَدَّرُ لِجَمِيعِ الْآجَالِ كَالصَّوْمِ وَالزَّكَاةِہ وَالْحَجِّ وَالْعِدَّةِ وَآجَالِ الْبَيْعِ وَالسَّلَمِ وَالْإِجَارَةِ، وَيُنْظَرُ ابْتِدَاءُ الْيَوْمِ فَيُقَدَّرُ كُلُّ فَصْلٍ مِنْ الْفُصُولِ الْأَرْبَعَةِ بِحَسَبِ مَا يَكُونُ كُلُّ يَوْمٍ مِنْ الزِّيَادَةِ وَالنَّقْصِ كَذَا فِي كُتُبِ الْأَئِمَّةِ الشَّافِعِيَّةِ، وَنَحْنُ نَقُولُ بِمِثْلِهِ إذْ أَصْلُ التَّقْدِيرِ مَقُولٌ بِهِ إجْمَاعًا فِي الصَّلَوَاتِ اهـ”.

(البحر الرائق: 468/1)

3… وهو ما تو اطأت عليه أخبار الإسراء من فرض الله تعالى الصلوات خمساًبعد ما أمر أولاً بخمسين، ثم استقرّ الأمر على الخمس شرعاً عاماًلأهل الآفاق لا تفصل بين قطر و قطر.

(الدر المختار: 20/2)

فقط واللہ اعلم بالصواب

7/دسمبر/2021

2/جمادي الاولى/1443ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں