جہیز کے لیے زکوۃ کی رقم دینا۔

فتویٰ نمبر:4077

سوال: جناب مفتیان کرام!

ایک شخص کے حالات ایسے ہیں کہ مشکل سے گھر کا خرچہ چلتا ہے لیکن ہو جاتا ہے اب اس کی بیٹی کی شادی ہے تو کیا جہیز کے اور کھانا کھلانے کے لےزکوة دینا صحیح ہے؟

جزاک اللہ۔

والسلام

الجواب حامداو مصليا

بیٹی کی شادی کے لیے کھانا کھلانا لازم نہیں کہ جس کے لیے زکوٰۃ لینی پڑے۔البتہ دیگر ضروریات کے لیے اگر مذکورہ شخص مستحقِ زکوۃ ہے یعنی اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ اصلیہ سے زائد نصاب (یعنی ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت یا اتنے مال تجارت) کے برابر رقم نہیں ہے ، اور نہ ہی اس قدر ضرورت سے زائد سامان ہے کہ جس کی مالیت نصاب کے برابر بنتی ہے اور نہ ہی وہ سید ، ہاشمی ہے تو اس کو زکاۃ دینا جائز ہے، لہذا مذکورہ شخص اگر مستحق زکاة ہے تو اس کو شادی یا جہیز کے مد میں زکوة کی رقم کا مالک بنادینے سے زکوة ادا ہوجائے گی۔

” فتاوی عالمگیری” میں ہے:

“لايجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي، والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي. …….ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية. ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم، كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة، فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم، كذا في الكافي”. (1/189، باب المصرف، کتاب الزکاة، ط: رشیدیه) 

▪ولا إلی غني یملک قدر نصاب فارغ عن حاجتہ الأصلیة من أي مال کان الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، باب المصرف، ۳: ۲۹۵، ۲۹۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ۔

▪”الْمَصْرِفِ أَيْ مَصْرِفِ الزَّكَاةِ وَالْعُشْرِ، وَأَمَّا خُمُسُ الْمَعْدِنِ فَمَصْرِفُهُ كَالْغَنَائِمِ (هُوَ فَقِيرٌ، وَهُوَ مَنْ لَهُ أَدْنَى شَيْءٍ) أَيْ دُونَ نِصَابٍ أَوْ قَدْرُ نِصَابٍ غَيْرِ نَامٍ مُسْتَغْرِقٍ فِي الْحَاجَةِ”

(الدر المختار علی ہامش ردالمحتار باب مصرف زکوٰۃ ج/3،ص/ 283)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:٢٤ رجب ١٤٤٠؁

عیسوی تاریخ: ١ اپریل ٢٠١٩؁

تصحیح وتصویب: حضرت مفتی انس عبدالرحیم۔

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں