جمع شدہ رقم سے حج کرنا یا ذاتی مکان بنانا

سوال:السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاته ۔

اگر کسی کے پاس اتنی رقم ہو کہ وہ اس سے حج کرے یا ذاتی مکان بنائے ( یعنی دونوں میں سے ایک کام کیا جا سکے ) تو کیا حج کرنا ضروری ہےیا ذاتی مکان بنوانا ؟ اور اس صورت میں حج نا کرنے سے گناہگار ہوگا؟

الجواب باسم ملہم الصواب

و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ!

حج فرض ہونے کے بعد فوری طور پر حج کرنا واجب ہے۔

اگر کسی سال حج کے وقت میں اتنی رقم موجود ہے جتنی رقم سے حج کیا جاسکتا ہے تو اب اس رقم سے مکان بنانا یا خریدنا جائز نہیں ہوگا، اگرچہ مکان کی ضرورت ہو۔ اس رقم سے حج کرنا ہی لازم ہے۔ اور اگر کسی بھی سال حج کے موقع پر رقم جمع نہیں تھی اور حج کا وقت آنے سے پہلے پہلے رقم جمع ہوگئی ہو تو چونکہ حج کا وقت آنے سے پہلے حج ذمہ پر فرض نہیں ہوتا؛ اس لیے حج کا وقت آنے سے پہلے اگر اس رقم سے مکان بنایا یا خریدا جائے تو یہ جائز ہے اور اس صورت میں حج فرض نہ ہونے کی وجہ سے گناہ نہیں ملے گا۔ لیکن اگر حج کا وقت آگیا اور یہ رقم موجود ہو تو حج فرض ہو جائے گا اور اس رقم سے حج کرنے کے بجائے مکان بنانا یا خریدنا جائز نہیں ہوگا، اور حج نہ کرنے کی صورت میں گناہ بھی ملے گا۔

= = = = = = =

• ومن لامسکن لہ ولا خادم وہو محتاج إلیہما ولہ مال یکفیہ لقوت عیالہ من وقت ذہابہ إلی حین إیابہ ولہ مال یبلغہ فلیس لہ صرفہ إلیہما إن حضر وقت خروج أہل بلدہٖ الخ۔ [غنیۃ الناسک: ص ۲۰؛ ومثلہ فی منحۃ الخالق: ج ۲، ص۵۴۹؛ بدائع الصنائع: ج ۲، ص۲۹۶؛ الفتاوی الھندیۃ: ج ۱، ص۲۱۷]

فقط۔ واللہ اعلم۔

اپنا تبصرہ بھیجیں