خلیفہ دوم حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ:قسط نمبر 1

خلیفہ دوم حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ:قسط نمبر 1

رسول اللہﷺکے جلیل القدرصحابی خلیفۂ دوم امیرالمؤمنین فاروقِ اعظم حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کاتعلق قبیلۂ قریش کے معززترین خاندان ’’بنوعدی‘‘سے تھا،جوکہ مکہ شہرکے مشہورومعروف محلہ ’’شُبیکہ‘‘میں آبادتھا۔جب جوانی کی منزل میں قدم رکھا توقبیلۂ قریش سے تعلق رکھنے والے دیگرمعززافرادکی مانندتجارت کواپنامشغلہ بنایا،فنونِ سپہ گری،شمشیرزنی، نیزہ بازی، تیراندازی،اورگھڑسواری میں خوب مہارت حاصل کی۔اس کے علاوہ پہلوانی اورکُشتی کے فن میں بھی انہیں کمال مہارت حاصل تھی ۔مکہ شہرکے قریب ہرسال ’’عُکاظ‘‘کا جومشہورومعروف اورتاریخی میلہ لگاکرتاتھا ،اس میں بڑے بڑے دنگلوں میں شرکت کرتے اور’’قوتِ بازو‘‘کاخوب مظاہرہ کیاکرتے تھے۔

مزیدیہ کہ بچپن میں ہی لکھناپڑھنابھی سیکھا،عربی لغت، ادب، فصاحت وبلاغت، خصوصاً تقریروخطابت کے میدان میں انہیں بڑی دسترس حاصل تھی ،شجاعت وبہادری کے ساتھ ساتھ حکمت ودانش ،اورفنِ تقریروخطابت پرمکمل عبور،یہی وہ خوبیاں تھیں جن کی بناء پرقریشِ مکہ ہمیشہ نازک اورحساس مواقع پرگفت وشنیدکی غرض سے انہی کواپنا ’’سفیر‘‘ اور ’’نمائندہ‘‘بناکربھیجاکرتے تھے۔

حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ ان حضرات میں سے تھے جنہوں نے ابتدائی دورمیں دینِ اسلام قبول کیا کہ جب مسلمان بہت زیادہ مظلوم ولاچارتھے،یہی وجہ ہے کہ اُس بے بسی وکسمپرسی کے دورمیں دینِ اسلام قبول کرنے والوں کابڑامقام ومرتبہ ہے ،ان کیلئے عظیم خوشخبریاں ہیں ،اورانہیں قرآن کریم میں ’’السابقون الأولون ‘‘یعنی’’بھلائی میں سب سے آگے بڑھ جانے والے‘‘کے نام سے یادکیاگیاہے،انہی خوش نصیب اورعظیم ترین افرادمیں حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔

مزیدیہ کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ’عشرہ مبشرہ‘‘یعنی ان دس خوش نصیب ترین افرادمیں سے تھے، جنہیں اس دنیاکی زندگی میں ہی رسول اللہﷺنے جنت کی خوشخبری سے شادکام فرمایاتھا۔حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کورسول اللہﷺ کے انتہائی مقرب اورخاص ترین ساتھی ہونے کے علاوہ مزیدیہ شرف بھی حاصل تھاکہ آپؓ رسول اللہﷺ کے سسربھی تھے،ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہاآپؓ ہی کی صاحبزادی تھیں۔

قبولِ اسلام

آفتابِ نبوت کومکہ شہرمیں اپنی کرنیں بکھیرتے ہوئے پانچواں سال چل رہاتھا،حضرت عمراُس وقت چھبیس برس کے کڑیل جوان تھے،رسول اللہﷺکی طرف سے مکہ کی وادی میں بلندکی جانے والی توحیدکی صدا ان کےلیے بالکل نامانوس اوراجنبی تھی،ان کی طبیعت میں بہت زیادہ سختی اورتیزی تھی،جس کسی کے بارے میں معلوم ہوجاتاکہ وہ مسلمان ہوگیا ہے، عمراس کے درپے آزارہوجاتے،یہی حال ابوجہل کابھی تھا،مسلمانوں کوان دونوں کی طرف سے شدیدپریشانی کاسامناتھا۔یہی وجہ تھی کہ رسول اللہﷺاُن دنوں اکثردعاء فرمایاکرتے:اَللّھُمَّ أَعِزَّ الاِسلَامَ بِعُمَر بن الخَطَّاب أو بِعَمرو بن ھِشَام”اے اللہ!تودینِ اسلام کوقوت عطاء فرما عمربن خطاب،یاعمروبن ہشام کے ذریعے۔

اُس ابتدائی دورمیں مکہ میں مٹھی بھرمسلمانوں کومشرکین کے ہاتھوں جس طرح اذیت کاسامناتھا،اس چیزکودیکھتے ہوئے رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کوملکِ حبشہ کی جانب ہجرت کرجانے کامشورہ دیاتھا،جس پر(نبوت کے پانچویں سال)یکے بعددیگرےمسلمانوں کی دومختلف جماعتیں مکہ سے حبشہ کی جانب ہجرت کرگئی تھیں۔

ایسے ہی ایک موقع پر حضرت عمرنے اپنے قریبی عزیزوں میں سے ایک مسلمان شخص کوجب بے بسی ولاچاری کی کیفیت میں مکہ سے حبشہ کی جانب ہجرت کرتے دیکھاتوبڑی ہی حسرت کے ساتھ اسے ہجرت کایہ ارادہ ملتوی کرکے مکہ میں ہی رک جانے کامشورہ دیا،جس پراس شخص نے بھی بڑی حسرت کے ساتھ یہ جواب دیاکہ ’’اے عمر!کاش تم نے ہمیں ناحق اس قدرنہ ستایاہوتاتوہم یوں بے وطن ہوجانے پرمجبورنہ ہوتے‘‘۔ یہ بات سن کرعمرپہلی باراپنی تمام ترترش مزاجی کے باوجوددکھی ہوگئے،اپنی قوم کویوں ٹوٹتے اوربکھرتے ہوئے ،اوربے وطن ہوتے ہوئے دیکھنا،یہ چیز ان کے لیے ا نتہائی صدمے کاباعث بنی،جس کی وجہ سے وہ شب وروزاسی پریشانی میں مبتلارہنے لگے کہ آخریہ معاملہ کس طرح حل ہوگا؟اسی کیفیت میں وقت گذرتارہا،اوربالآخراس کے اگلے سال،یعنی نبوت کےچھٹےسال ایک دن حضرت عمرکے صبرکاپیمانہ لبریزہوگیا،سوچاکہ جس شخص کی وجہ سے میری قوم یوں،ٹوٹتی اوربکھرتی جارہی ہے،اسی شخص کو(نعوذباللہ) قتل کردیاجائے،اوریوں اس مشکل کاہمیشہ کیلئےخاتمہ کردیاجائے،یہی بات سوچ کروہ ایک روزسخت گرمی کے موسم میں اورتپتی ہوئی دوپہرمیں ننگی تلوارہاتھ میں لئے ہوئے چل دئیے۔ راستے میں نُعیم بن عبداللہ نامی ایک شخص کی ان پر نظرپڑی تووہ ٹھٹھک کررہ گیا،اس قدرآگ برساتی ہوئی گرمی میں،اورتپتی ہوئی اس دوپہرمیں عمراپنے ہاتھ میں ننگی تلوارلئے ہوئے چلے جارہے ہیں،وہ شخص خوفزدہ ہوگیا،اورخوب سمجھ گیاکہ معاملہ خطرناک ہے۔ چنانچہ اس نے اسی خوف ودہشت کی کیفیت میں دریافت کیا:’’عمر!خیریت توہے؟اس وقت آپ کہاں چلے جارہے ہیں؟ عمرنے جواب دیا(نعوذباللہ)آج میں اس شخص (یعنی رسول اللہﷺکاکام تمام کرنے جارہاہوں‘‘۔

اس پروہ شخص بولا’’عمر!پہلے اپنے گھرکی خبرتولے لو،تمہاری اپنی بہن اوربہنوئی مسلمان ہوچکے ہیں‘‘ اس شخص کی زبانی یہ بات سن کرعمرآگ بگولہ ہوگئے،اوروہاں سے سیدھے اپنی بہن (فاطمہ بنت خطاب)کے گھرپہنچے۔ اس وقت وہ اوران کے شوہر(سعیدبن زید رضی اللہ عنہ)دونوں تلاوتِ قرآن میں مشغول تھے۔ عمرنے وہاں پہنچتے ہی نہایت غصے کی کیفیت میں بہن کوزدوکوب کرناشروع کردیا،یہی سلسلہ جاری تھاکہ اس دوران اچانک بہن نے نہایت پرعزم لہجے میں اورفیصلہ کن اندازمیں بھائی کومخاطب کرتے ہوئے کہا’’عمر!تم جس قدرچاہومجھے مارلو،لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوگا، بہن کی زبانی یہ بات سن کر،اورپہلی باربالکل غیرمتوقع طورپراس کی یہ جرأت دیکھ کرعمرچونک اٹھے، اورسوچنے لگے کہ اس دین میں اتنی قوت،اس کلام میں اس قدرتأثیرکہ اس قدر زدوکوب کے باوجودبہن نے یوں دوٹوک فیصلہ سنادیا،تب عمرکے اندازبدلنے لگے، اورپھرقدرے توقف کے بعدبہن کومخاطب کرتے ہوئے یوں کہنے لگے’’اچھا،جوکچھ تم پڑھ رہے تھے،ذرہ مجھے بھی وہ چیزدکھاؤ‘‘اس پربہن نے جواب دیا’’عمر!تم مشرک ہو،ناپاک ہو،لہٰذاتم اللہ کےاس پاک کلام کونہیں چھوسکتے‘‘۔

عمرنے مسلسل اصرارکیا، آخرعمرکایہ اصراراب ’’التجاء‘‘میں تبدیل ہونے لگا،بہن نے جب عمرکے رویے میں یہ اتنی بڑی تبدیلی دیکھی توکہاکہ ’’بھائی پہلے تم غسل کرکے پاک صاف ہوجاؤ‘‘ عمرغسل کرکے آئے اورپھروہی مطالبہ دہرایا،تب بہن نے انہیں وہ اوراق دکھائے جن میں وہ قرآنی آیات تحریرتھیں،عمرپڑھتے گئے،{طٰہٰ، مَٓا أنزَلنَا عَلَیکَ القُرآنَ لِتَشقَیٰ، اِلّا تَذکِرَۃً لِّمَن یَخشَیٰ، تَنزِیلاً مِّمَن خَلَقَ الأرضَ وَالسَّمٰوَاتِ العُلَیٰ، الرَّحمٰنُ عَلَیٰ العَرشِ استَوَیٰ ، لَہٗ مَا فِي السَّمٰواتِ وَمَا فِي الأرضِ وَ مَا بَینَھُمَا وَمَا تَحتَ الثَّرَیٰ، وَاِن تَجھَر بِالقَولِ فَاِنَّہٗ یَعلَمُ السِّرَّ وَأَخفَیٰ، اَللّہُ لَآ اِلٰہَ اِلّا ھُوَ لَہُ الأَسمَٓائُ الحُسنَیٰ}(’’طٰہٰ، ہم نے یہ قرآن اس لئے نازل نہیں کیاکہ تم مشقت میں پڑجاؤ،البتہ یہ اس شخص کی نصیحت کیلئے نازل کیاہے جو[اللہ سے]ڈرتاہو،اس کانازل کرنااس اللہ کی طرف سے ہے جس نے زمین کواور بلند آسمانوں کوپیداکیاہے،جورحمن ہے عرش پرقائم ہے،جس کی ملکیت آسمانوں اورزمین، اوران دونوں کے درمیان،اورزمین کی تہوں کے نیچے کی ہرایک چیزپرہے۔ اگرتوبلندآوازسے کوئی بات کہے، تو،وہ توہرایک پوشیدہ سے پوشیدہ ترچیزکوبھی بخوبی جانتاہے،وہی اللہ ہے جس کے سواکوئی معبودنہیں،اسی کے بہترین نام ہیں)۔

عمریہ آیات پڑھتے گئے ،اورایک ایک لفظ ان کے دل کی گہرائیوں میں اترتاچلاگیا،دیکھتے ہی دیکھتے دل کی دنیابدل گئی،اورپھربے اختیاریوں کہنے لگے:’’کیایہی وہ کلام ہے جس کی وجہ سے قریش نے محمداوران کے ساتھیوں کواس قدرستارکھاہے؟‘‘۔اورپھراگلے ہی لمحے رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضری کی غرض سے بے تابانہ وہاں سے روانہ ہوگئے۔

اُ ن دنوں رسول اللہﷺ بیت اللہ سے متصل ’’صفا‘‘پہاڑی کے قریب ’’دارالارقم‘‘نامی گھر میں رہائش پذیرتھے ،جہاں مٹھی مسلمان آپ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوکراللہ کے دین کاعلم حاصل کیاکرتے تھے۔چنانچہ عمراسی ’’دارالارقم‘‘کی جانب روانہ ہوگئے۔

اُس وقت وہاں دارالارقم میں رسول اللہﷺ کے ہمراہ چندمسلمان موجودتھے،انہوں نے جب عمرکواس طرف آتے دیکھا تووہ پریشان ہوگئے،اتفاق سے اُس وقت ان کے ہمراہ حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بھی موجودتھے،جن کااس معاشرے میں بڑامقام ومرتبہ اورخاص شان وشوکت تھی،جن کی بہادری کے بڑے چرچے تھے ، خاندانِ بنوہاشم کے چشم وچراغ، نیزرسول اللہﷺ کے چچا تھے،اورمحض تین دن قبل ہی مسلمان ہوئے تھے،انہوں نے جب یہ منظردیکھا،اوروہاں موجودکمزوروبے بس مسلمانوں کی پریشانی دیکھی،توانہیں تسلی دیتے ہوئے کہنے لگے: ’’فکرکی کوئی بات نہیں،عمراگرکسی اچھے ارادے سے آرہے ہیں توٹھیک ہے، اوراگرکسی برے ارادے سے آرہے ہیں تو آج میں ان سے خوب اچھی طرح نمٹ لوں گا‘‘ اورپھرعمروہاں پہنچے،آمدکامقصدبیان کیا،حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ انہیں ہمراہ لئے ہوئے اندررسول اللہﷺکی خدمت میں پہنچے،حضرت عمرنے آپ ﷺکی خدمت میں حاضرہوکر کلمہ پڑھا،اورآپﷺکے دستِ مبارک پربیعت کی۔

اس موقع پروہاں موجودمسلمانوں کی مسرت اورجوش وخروش کایہ عالم تھاکہ ان سب نے یک زبان ہوکراس قدرپرجوش طریقے سے ’’نعرۂ تکبیر‘‘بلندکیاکہ مکے کی وادی گونج اٹھی،مشرکینِ مکہ کے نامورسرداروں کے کانوں تک جب اس نعرے کی گونج پہنچی، تووہ کھوج میں لگ گئے کہ آج مسلمانوں کے اس قدرجوش وخروش کی وجہ کیاہے؟ اورآخرجب انہیں یہ بات معلوم ہوئی کہ آج عمرمسلمان ہوگئے ہیں ،تووہ نہایت رنجیدہ وافسردہ ہوگئے،اوربے اختیاریوں کہنے لگے کہ’’آج مسلمانوں نے ہم سے بدلہ لے لیا‘‘۔

حضرت عمررضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام سے قبل تک مسلمان کمزوروبے بس تھے،چھپ چھپ کراللہ کی عبادت کیاکرتے تھے،جس روزحضرت عمرؓ نے دینِ اسلام قبول کیا، تورسول اللہﷺ کی خدمت میں عرض کیاکہ : ألَسْنَا عَلَیٰ الحَقِّ یَا رَسُولَ اللّہ؟ اے اللہ کے رسول! کیاہم حق پرنہیں ہیں؟‘‘ آپﷺ نے جواب دیا :’ہاں اے عمر ہم حق پر ہیں‘‘۔حضرت عمرکہنے لگے : فَفِیمَ الاِخفَائُ؟ یعنی’’توپھرہمیں چھپانے کی کیاضرورت ہے؟‘‘چنانچہ پہلی بارمسلمان وہاں سے بیت للہ کی جانب اس کیفیت میں روانہ ہوئے کہ انہوں نے دوصفیں بنارکھی تھیں، ایک صف کی قیادت حضرت عمررضی اللہ عنہ، جبکہ دوسری صف کی قیادت حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کررہے تھے،حتیٰ کہ اسی کیفیت میں یہ تمام مسلمان بیت اللہ کے قریب پہنچے جہاں حسبِ معمول بڑی تعدادمیں رؤسائے قریش موجودتھے،ان سب کی نگاہوں کے سامنے مسلمانوں نے پہلی بارعلیٰ الاعلان بیت اللہ کا طواف کیااورنمازبھی اداکی،یہی وہ منظرتھاجسے دیکھ کررسول اللہﷺنے حضرت عمرکو ’’الفاروق‘‘یعنی’’ حق وباطل کے درمیان فرق اورتمیزکردینے والا‘‘کے یادگارلقب سےنوازاتھا۔

حضرت عمررضی اللہ عنہ کے مزاج میں طبعی اورفطری طورپرہی تندی اورشدت تھی،قبولِ اسلام کے بعداب ان کی یہ شدت اسلام اورمسلمانوں کی حمایت ونصرت میں صرف ہونے لگی،جس سے کمزوروبے بس مسلمانوں کوبڑی تقویت نصیب ہوئی ،جیساکہ مشہورصحابی حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’مَا زِلنَا أَعِزَّۃً مَنذُ أَسلَمَ عُمَر (بخاری)”جب سے عمرمسلمان ہوئے ہیں تب سے ہم طاقت ورہوئے ہیں۔

اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اِن کَانَ اِسلَامُ عُمَر لَفَتْحاً ، وَھِجرَتُہٗ لَنَصْراً ، وَاِمَارَتُہٗ رَحْمَۃً ، وَاللّہِ مَا استَطَعْنَا أن نُصَلِّيَ بَالبَیْتِ حَتّیٰ أسْلَمَ عُمَر(مجمع الزوائد)’’ عمرکاقبولِ اسلام ہمارے لئے بڑی فتح تھی،ان کی ہجرت ہمارے لئے نُصرت تھی، اوران کی خلافت ہمارے لئے رحمت تھی،اللہ کی قسم ! عمرکے قبولِ اسلام سے قبل ہم کبھی بیت اللہ کے قریب نمازتک نہیں پڑھ سکتے تھے ‘‘ ۔

حضرت عمررضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام سے قبل کیفیت یہ تھی کہ مکہ میں جوکوئی مسلمان ہوجاتا وہ اپنے قبولِ اسلام کوحتیٰ الامکان چھپانے کی کوشش کیاکرتا،جبکہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کاحال یہ تھاکہ تمام سردارانِ قریش کے پاس جاجاکرانہیں اپنے قبولِ اسلام کے بارے میں خودآگاہ کیاکرتے تھے۔

حضرت صہیب بن سنان الرومی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :(لَمَّا أسْلَمَ عُمَرُ ظَھَرَ الاِسلَامُ، وَدُعِيَ اِلَیہِ عَلَانِیَۃً، وَجَلَسنَا حَولَ البَیتِ حِلَقاً، وَطُفنَا بِالبَیْت وَانتَصَفْنَا مِمَّن غَلَظَ عَلَینا ، وَ رَدَدنَا عَلَیہِ بَعْضَ مَا یَأتِي بِہٖ)جب عمر(رضی اللہ عنہ) مسلمان ہوئے تودینِ اسلام کوغلبہ نصیب ہوا، اوردینِ اسلام کی طرف علیٰ الاعلان دعوت دی جانے لگی،بیت اللہ کے قریب ہم اپنے حلقے بناکر (بے خوف وخطر)بیٹھنے لگے،بیت اللہ کاطواف کرنے لگے،اورماضی میں جولوگ (ہمارے قبولِ اسلام کی وجہ سے )ہمارے ساتھ ظلم وزیادتی اورناانصافی کرتے چلے آرہے تھے،اب ہم کسی حدتک ان سے اپناحق بھی وصول کرنے لگے تھے‘‘۔

یوں حضرت عمررضی اللہ عنہ کاقبولِ اسلام مسلمانوں کیلئے فتح ونصرت ،جبکہ کفارومشرکین کیلئے شکست وہزیمت کاپیش خیمہ ثابت ہوا۔

ہجرت

مکہ میں اسی طرح وقت گذرتارہا،حتیٰ کہ جب ہجرت کاحکم نازل ہواتوکیفیت یہ تھی کہ تمام مسلمانوں نے خفیہ طورپرمکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کی،جبکہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے جب ہجرت کاارادہ کیا،توبڑی ہی شانِ بے نیازی کے ساتھ مشرکینِ مکہ کی بھیڑ سے بے خوف وخطرگذرتے ہوئے بیت اللہ کے قریب پہنچے، نہایت اطمینان کے ساتھ طواف کیا،دورکعت نمازپڑھی،اس کے بعدوہاں موجود سردارانِ قریش کومخاطب کرتے ہوئے کہا:’’میں مدینہ جارہاہوں،تم میں سے اگرکوئی یہ چاہتاہے کہ اس کی ماں اس کی لاش پرروئے،اس کی بیوی بیوہ ہوجائے،اوربچے یتیم ہوجائیں،تووہ آئے، مجھے روک لے…‘‘۔

یہ سن کروہ تمام سردارانِ قریش سہم گئے،اوران میں سے کسی کوآگے بڑ ھ کرروکنے کی ہمت نہیں ہوئی…اوریوں حضرت عمررضی اللہ عنہ خفیہ ہجرت کےبجائےعلیٰ الاعلان وہاں سے مدینہ کی جانب روانہ ہوگئے۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں