کتابیں کرائے پر لینا

فتویٰ نمبر:1050

السلام عليكم یہ بہشتی زیور کی عبارت ہے “پڑھنے کے لیے کوئی کتاب لی تویہ صحیح نہیں بلکہ باطل ہےاس کا مطلب بتا دیجیے، کیونکہ آج کل تو لائبریریز سے لوگ کرائے پر کتابیں لیتے ہیں پڑھنے کے لیے تو کیا یہ ناجائز ہے؟مجھے یہ پڑھانا ہے طالبات کواس لیے واضح فرمادیجیے۔

سائلہ: سمیہ

منگھوپیر

الجواب حامدۃ ومصلیۃ ومسلمۃ

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ!

اول آپ یہ سمجھ لیجیے کہ منافع کے مقابلے میں عوض پر عقد کرنے کو شرعا اجارہ کہتے ہیں مثلا: کسی مکان یا کمرے کو( منفعت) رہائش کے لیے کرائے پہ لینا، کسی جگہ کو (منفعت) کام کے لیے لینا، دیہاڑی پہ کس مزدور کو مقرر کرنا وغیرہ اور مؤجر (جو کرائے پہ دے )اسی وقت اجرت کا مستحق ہوتا ہے جب مستاجر(جو کرایے پہ لے)اپنی منفعت حاصل کرنے پہ قادر ہوکیونکہ اجرت کا استحقاق اسی وقت ہوگا جب منفعت کا حصول مکمل طور پہ پایا جائے اسی طرح اگر مؤجر کتابوں کو پڑھنے کے لیے کرائے پہ دے توچاہے وہ شعرو ادب سے متعلق ہو یا فقہ ودینیات سے ،اس صورت میں منفعت کتاب(کتاب کو پورا پڑھ کے سمجھنا) کا حصول اختلاف ذکاوت وفطانت کے سبب ہر ایک کے لیے یکساں نہیں اس لیے منفعت کا حصول ممکن نہ ہونے کے سبب اجرت بھی واجب نہیں اور عقد باطل ہےاگرچہ مستاجر کتاب پڑھ لے۔

یہ فقہا کی رائے تھی جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا ہےکیونکہ اس دور میں کتابوں کو کرایے پر دینے اور لینے کا رواج نہیں تھا اور کتابوں کا عوض کے بدل پڑھنا منفعت شمار نہیں ہوتا تھا اس لیے عرف اور کتاب سے منفعت نہ ہونے کی وجہ سے یہ عقد باطل تھا لیکن آج کل کتابوں کا کرایے پہ دینا اور لینا عام ہے اور لوگوں میں اس کا رواج قائم ہوچکا ہے کیونکہ اکثر کتابیں مہنگی ہونے کی وجہ سے ہر ایک کی دسترس میں نہیں ،نہ ہر ایک کی حیثیت ہوتی ہے کہ وہ ہر کتاب خریدلےبسا اوقات مختصر وقت کے لیے بھی کتاب کی ضرورت ہوتی ہے تو اس صورت میں کرائے پہ کتاب لینا ضرورت شدیدہ بن جاتی ہے اور عرف کی بنا پر یہ عقد جائز ہوجاتا ہے کیونکہ وہ عرف وعادت بھی مستقل دلیل شرعی ہے جس کا لوگوں کے معاملات میں رواج ہوجائے، لوگ اسے درست جاننے لگیں اور اس کی مخالفت سے حرج و تنگی پیدا ہوجائے۔

اما شرائط الصحۃ۔ ۔ ۔ ان یکون المعقود علیہ وھو المنفعۃ معلوما۔ ۔ ۔ الخ(الفتاوی العالمکیری: ج۴ص۴۱۱،کتاب الاجارہ)

الاجرۃ لا تجب بالعقد وتستحق۔ ۔ ۔ باستیفاء المعقود علیہ۔(الھدایۃ:ج۳ص۲۹۷،کتاب الاجارات)

تفسد الاجارات بالشروط المخالفۃ لمقتضی العقد۔ ۔ الخ(الدر المختار، ج۵ص۳۲)

ولو استاجر کتبا لیقرا فیھا شعرا او فقھا او غیر ذلک لم یجز لان المعقود علیہ فعل القاری والنظر فی الکتاب والتامل فیہ لیفھم المکتوب فعلہ ایضا فلا یجوز ان یجب علیہ اجر بمقابلۃ فعلہ ولان فھم ما فی الکتاب لیس فی وسع صاحب الکتاب ولا یحصل بالکتاب ۔ ۔ ۔ وکان صاحب الکتاب یوجب لہ ما لا یقدر علی ایفائہ فلیس فی عین الکتاب منفعۃ مقصودۃ لیوجب الاجر بمقابلۃ ذلک فکان العقد باطلا۔ ۔ ولا اجر لہ وان قرا۔ الخ(المبسوط للسرخسی ۴۰/۱۶باب الاجارۃ الفاسدۃ)

الثابت بالعرف کالثابت بالنص(رسم المفتی قدیم ص۳۸)

وان مخالفۃ العرف الذی یعدہ الناس حسنا یکون فیہ حرج وضیق ولقد قال اللہ تعالی ما جعل اللہ علیکم فی الدین من حرج۔(جدید فقہی مباحث: ج۱۴ص۵۱۷)

واللہ تعالی اعلم بالصواب 

بنت عبد الباطن عفی عنھا

۵جمادی الثانی ۱۴۳۹ھ

۲۲فروری۲۰۱۸ع

اپنا تبصرہ بھیجیں