لقطہ کا حکم، کیا لقطہ مسجد کی تعمیر میں دیا جاسکتا ہے؟

سوال:السلام علیکم!

کسی شخص کو روڈ پر کچھ رقم ملی ہے اور آس پاس کوئی ایسا بندہ نہیں تھا جو اس رقم کا مالک ہو، اب اس رقم کا کیا کرنا چاہیے؟

اور کیا یہ رقم مسجد کی تعمیر میں دی جاسکتی ہے؟

الجواب باسم ملھم الصواب

وعلیکم السلام!

آپ کے سوال میں دو امور مذکور ہیں، جن کا جواب درج ذیل ہیں:

1۔ راستے میں پڑی ہوئی چیز یا رقم کو فقہ کی اصطلاح میں “لُقطہ” کہتے ہیں۔

لقطہ کا حکم یہ ہے کہ اگر لقطہ معمولی درجہ کی چیز ہو اور غالب گمان ہو کہ مالک اس کو تلاش نہیں کرے گا، تو اس کے ا علان کی ضرورت نہیں ،ضائع ہونے کا خطرہ ہوتو اٹھاکر خود بھی استعما ل کی جاسکتی ہے ، کسی دوسرے کو بھی دی جاسکتی ہے۔

اور اگر کوئی قیمتی چیزہو تو ہر ممکن طریقہ(مساجد کے دروازے یابازاروں میں یا جہاں سے ملی ہے وہاں پوسٹر لگاکر یااخبارات میں اشتہارات شائع کرکے)سے اس کی تشہیر کی جائے، یہاں تک کہ غالب گمان حاصل ہو جائےکہ اب مالک واپس نہیں آئے گااور تلاش کرنا چھوڑ دیا ہوگا،اس کےبعد اگر لقطہ اٹھانے والا خود زکوٰۃ کا مستحق ہو تو اپنے استعمال بھی لاسکتا ہے،ورنہ صدقہ کر دے۔

فتاوی فریدیہ میں ہے:

لقطہ کی تشہیر اور تعریف کے لیے مفتی بہ قول کی بنا پر کوئی خاص مدت مقرر نہیں ہے بلکہ اس وقت تک تعریف اور تشہیر ضروری ہوگی کہ ظن غالب پیدا ہو کہ مالک نے اب اس کی طلب اور جستجو ترک کی ہوگی، اس کے بعد اگر یہ شخص مسکین ہو تو خود استعمال کر سکتا ہے اور اگر غنی ہو تو تصدق کرے گا اور اگر مالک ظاہر ہوا اور ثواب پر راضی نہ ہوا تو اس کا مثل یا اس کی قیمت دینا پڑے گی اور خریدار پر اس کا استعمال ناجائز نہیں جبکہ مدت خاص کے بعد خریدا ہو”۔

(فتاوی فریدیہ: 446/ 7)

2۔ لقطے کی رقم کو مسجد کی تعمیر میں صرف کرنا درست نہیں؛ کیونکہ لقطہ صدقات واجبہ میں سے ہے اور صدقات واجبہ کی رقم مساجد میں بغیر تملیک کے نہیں دی جاسکتی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

1. “عن جابر رضي الله عنه قال: رخص لنا رسول الله صلی الله علیه وسلم في العصا والسوط والحبل واشباھه یلتقطه الرجل ینتفع به”.

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: 5 / 2020)

ترجمہ:

“حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں چھڑی، کوڑا، رسی اور اس جیسی چیزوں کے بارے میں رخصت دی ہے، کہ کوئی شخص اٹھالے تو اس سے فائدہ اٹھالے”۔

2. “وفی الدرالمختار: وعرف ای نادی علیها حیث وجدها وفی المجامع الی ان صاحبہا لا یطلبها او انها تفسد ان بقیت کالاطعمة ونقل فی ردالمحتار عن المضمرات والجوهرۃ وعلیه الفتویٰ”.

(الدرالمختار مع ردالمحتار، كتاب اللقطة: 350/3)

4. وفی الهندیة: ویعرف الملتقط اللقطة فی الاسواق والشوارع مدۃ یغلب علی ظنه ان صاحبها لا یطلبها بعد ذلك هو الصحیح کذا فی مجمع البحرین”.

(الفتاویٰ الهندیة، كتاب اللقطة: 289/2)

4. “ثم بعد تعریف المدۃ المذکورۃ الملتقط مخیر بین أن یحفظها حسبة وبین أن یتصدق بها؛ فإن جاء صاحبها فأمضی الصدقة، یکون له ثوابها”.

(الفتاویٰ الهندیة، أول کتاب اللقطة: 289/2)

5. “إن أشهد علیه وعرّف إلی أن علم أن صاحبها لا یطلبها … کانت أمانة لم تضمن بلا تعد … فینتفع الرافع بها لو فقیرًا وإلا تصدق بها علی فقیر، فإن جاء مالکها بعد التصدق خیر بین إجازۃ فعله ولو بعد هلاکه وله ثوابها أو تضمینه”.

(تنویر الأبصار مع الدر المختار، کتاب اللقطة: 439- 435 /6)

6. “إن کان الملتقط غنیا لم یجز له أن ینتفع بها … و إن کان الملتقط فقیرا فلا بأس بأن ینتفع بها”.

(هدایة، کتاب اللقطة: 617/2)

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

8 صفر 1442ھ

16ستمبر 2021 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں