مفقود کے مال میراث کا حکم

فتویٰ نمبر:2076

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

سوال یہ ہے کہ میرا ایک بھائی چالیس سال سے مفقودالخبر ہے انقلابی حالات آپ کو بخوبی معلوم ہیں بعد میں 2010 میں والد مرحوم کاانتقال ہوا اب تقسیم میراث میں وہ مفقود بھائی کاحق ہے یا نہیں اورمفقودبھائی کی ایک زوجہ اور ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے مکمل اورمفصل مدلل مع حوالہ کیساتھ فتوی چاہیئے

والسلام

سائل کا نام: سیدعبدالہادی 

پتا: کوئٹہ

الجواب حامداو مصليا

مفقود یعنی وہ شخص جو اپنی جگہ سے غائب ہو جائے اور اس کی زندگی و موت کا کوئی علم نہ ہو۔ میراث کے معاملے میں اس کی دو حیثیتیں ہیں؛ مفقود اپنے مال میں زندہ سمجھا جائے گا، لہٰذا کوئی دوسرا اس کا وارث نہیں ہوسکتا اور دوسرے کے مال میں مردہ سمجھا جائے گا، لہٰذا وہ کسی کا وارث نہیں ہوگا، جب تک کہ اس کی موت حقیقتا یا حکما متعین نہ ہوجائے۔حقیقتا تو یہ کہ اس کا مردہ ہونا حقیقی ذرائع سے معلوم ہوجائے اورحکما مفقود کو میت قرار دینے کی دو شکلیں ہیں؛ ایک یہ کہ اُس کو غائب ہوئے اتنا طویل عرصہ گذر جائے کہ اُس کے ہم عصر لوگوں میں کوئی باقی نہ رہے، اس سلسلہ میں قرآن و حدیث میں کوئی خاص مقدار یا خاص مدت ذکر نہیں اس لیے فقہاء کرام کا اختلاف ہوگیا اور فقہ حنفی میں اس متعلق سات تک اقوال ملتے ہیں۔ اس میں اصل ظاہر الروایہ ہی ہے یعنی “موت الاقران” تاہم ایک آدمی کی عمر عادتا کتنی ہوتی ہےاور اس کے اقران کب ختم ہوں گے اس میں اجتہادی اقوال سامنے آگئے مشہور قول نوے سال کا ہے، اس کے علاوہ 100،80،70،60 اور 120سال کے اقوال بھی ہیں۔ تاہم چونکہ مذکورہ تقدیر کوئی منصوص نہیں نیز متفق علیہ بھی نہیں بلکہ ظاہر الروایہ بھی نہیں اس لیے اگر کوئی قاضی یا جج اس قول کے خلاف فیصلہ کرے تو وہ نافذ ہونا چاہیئے جب کہ ایک معتد بہ مدت گزر چکی ہو اور جس سے غالب یہی ہو کہ اب مفقود زندہ نہیں ہوگا۔

اور دوسری صورت یہ ہے کہ عدالتِ میں مقدمہ درج کیا جائے، اور عدالت کی طرف سے بعد از تحقیق اس کی موت کا فیصلہ دے دیا جائے اگرچہ زیادہ مدت نہ گزری ہو۔ 

صورت مسؤلہ میں چونکہ آپ کے بھائی کی موت حقیقتا یا حکما متعین نہیں ہوئی اس لیے ان کا حصہ روکا جائے گا ۔ اگر واپس آجاتے ہیں تو ان کو دے دیا جائے گا اور اگر ان کی موت متعین ہوجائے تو جس وقت سے وہ غائب ہیں اس وقت سے ان کو مردہ تصور کیا جائے گا اور اپنے والد کی میراث میں ان کا حق نہیں ہوگا بلکہ جو حصہ روکا گیا وہ والد کے ورثاء کی طرف بقدر حصص لوٹایا جائے گا۔ ہاں اگر مفقود کا ذاتی مال تھا وہ ان کی موت متعین ہونے کی صورت میں اب ان کے شرعی ورثاء میں تقسیم کردیا جائے گا۔ 

وَفِي مَالِ الْغَيْرِ يُعْتَبَرُ كَأَنَّهُ مَاتَ يَوْمَ فَقْدِهِ، كَذَا فِي التَّتَارْخَانِيَّة

يحكم بِمَوْتِهِ (فِي) حَقِّ(مَالِ غَيْرِهِ مِنْ حِينِ فَقْدِهِ فَيُرَدُّ الْمَوْقُوفُ لَهُ إلَى مَنْ يَرِثُ مُوَرِّثَهُ عِنْدَ مَوْتِهِ)( ص298 – كتاب الدر المختار وحاشية ابن عابدين رد المحتار- فرع ليس للقاضي تزويج أمة غائب ومجنون – المكتبة الشاملة الحديثة)

يوقف قسطه إلى موت أقرانه في بلده على المذهب) لانه الغالب، واختار الزيلعي تفويضه للامام.

(ص360 – كتاب الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار – كتاب الآبق – المكتبة الشاملة الحديثة)

(قَوْلُهُ: خِلَافًا لِمَالِكٍ) فَإِنَّ عِنْدَهُ تَعْتَدُّ زَوْجَةُ الْمَفْقُودِ عِدَّةَ الْوَفَاةِ بَعْدَ مُضِيِّ أَرْبَعِ سِنِينَ، وَهُوَ مَذْهَبُ الشَّافِعِيِّ الْقَدِيمُ وَأَمَّا الْمِيرَاثُ فَمَذْهَبُهُمَا(المالک والاحناف) كَمَذْهَبِنَا فِي التَّقْدِيرِ بِتِسْعِينَ سَنَةً۔

(ص295 – كتاب الدر المختار وحاشية ابن عابدين رد المحتار – فرع أبق بعد البيع قبل القبض – المكتبة الشاملة الحديثة)

وَلَا يَرِثُ الْمَفْقُودُ أَحَدًا مَاتَ فِي حَالِ فَقْدِهِ، وَمَعْنَى قَوْلِنَا ” لَا يَرِثُ الْمَفْقُودُ أَحَدًا ” أَنَّ نَصِيبَ الْمَفْقُودِ مِنْ الْمِيرَاثِ لَا يَصِيرُ مِلْكًا لِلْمَفْقُودِ، أَمَّا نَصِيبُ الْمَفْقُودِ مِنْ الْإِرْثِ فَيَتَوَقَّفُ، فَإِنْ ظَهَرَ حَيًّا عُلِمَ أَنَّهُ كَانَ مُسْتَحِقًّا، وَإِنْ لَمْ يَظْهَرْ حَيًّا حَتَّى بَلَغَ تِسْعِينَ سَنَةً فَمَا وُقِفَ لَهُ يُرَدُّ عَلَى وَرَثَةِ صَاحِبِ الْمَالِ يَوْمَ مَاتَ صَاحِبُ الْمَالِ، كَذَا فِي الْكَافِي (ص300 – كتاب الفتاوى الهندية – كتاب المفقود – المكتبة الشاملة الحديثة )

وأما الموقوف من ترکۃ غیرہ، فإنہ یرد علی ورثۃ ذلک الغیر، ویقسم بینہم کأن المفقود لم یکن۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الفرائض / الباب الثامن في المفقود والأسیر ۶؍۴۵۶ دار إحیاء التراث العربي بیروت)

وإن ثبت موته بالبينة الشرعية، اعتبر ميتاً من الوقت الذي يثبت أنه مات فيه، ويرثه ورثته من ذلك الوقت، وإن حكم القاضي بموته، اعتبر ميتاً من حين الحكم، ويرثه ورثته من تاريخ الحكم فقط (ص7893۔كتاب الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي۔ المكتبة الشاملة الحديثة) 

قَوْلُهُ: وَحُكِمَ بِمَوْتِهِ بَعْدَ تِسْعِينَ سَنَةً) لِأَنَّهُ الْغَايَةُ فِي زَمَانِنَا وَالْحَيَاةُ بَعْدَهَا نَادِرٌ فَلَا عِبْرَةَ لِلنَّادِرِ، وَقَدْ وَقَعَ الِاخْتِلَافُ فِي هَذِهِ وَاخْتَلَفَ التَّرْجِيحُ، فَظَاهِرُ الرِّوَايَةِ وَهُوَ الْمَذْهَبُ أَنَّهُ مُقَدَّرٌ بِمَوْتِ الْأَقْرَانِ فِي السِّنِّ؛ لِأَنَّ مِنْ النَّوَادِرِ أَنْ يَعِيشَ الْإِنْسَانُ بَعْدَ مَوْتِ أَقْرَانِهِ فَلَا يَنْبَنِي الْحُكْمُ عَلَيْهِ فَإِذَا بَقِيَ مِنْهُمْ وَاحِدٌ لَا يُحْكَمُ بِمَوْتِهِ وَاخْتَلَفُوا فِي الْمُرَادِ بِمَوْتِ أَقْرَانِهِ فَقِيلَ مِنْ جَمِيعِ الْبِلَادِ، وَقِيلَ مِنْ بَلَدِهِ وَهُوَ الْأَصَحُّ، كَذَا فِي الذَّخِيرَةِ. وَاخْتَارَ الْمُؤَلِّفُ التَّقْدِيرَ بِالتِّسْعِينَ بِتَقْدِيمِ التَّاءِ عَلَى السِّينِ تَبَعًا لِابْنِ الْفَضْلِ وَهُوَ الْأَرْفَقُ كَمَا فِي الْهِدَايَةِ وَفِي الذَّخِيرَةِ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى، وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ تَقْدِيرُهُ بِمِائَةِ سَنَةٍ وَاخْتَارَهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ حَامِدٍ وَفِي رِوَايَةِ الْحَسَنِ عَنْ الْإِمَامِ بِمِائَةٍ وَعِشْرِينَ سَنَةً وَاخْتَارَهُ الْقُدُورِيُّ وَاخْتَارَ الْمُتَأَخِّرُونَ سِتِّينَ سَنَةً وَاخْتَارَ الْمُحَقِّقُ ابْنُ الْهُمَامِ سَبْعِينَ سَنَةً وَاخْتَارَ شَمْسُ الْأَئِمَّةِ أَنْ لَا يُقَدِّرَ بِشَيْءٍ؛ لِأَنَّهُ أَلْيَقُ بِطَرِيقِ النَّفَقَةِ؛ لِأَنَّ نَصْبَ الْمَقَادِيرِ بِالرَّأْيِ لَا تَكُونُ وَفِي الْهِدَايَةِ أَنَّهُ الْأَقْيَسُ وَفَوَّضَهُ بَعْضُهُمْ إلَى الْقَاضِي فَأَيُّ وَقْتٍ رَأَى الْمَصْلَحَةَ حَكَمَ بِمَوْتِهِ، قَالَ الشَّارِحُ وَهُوَ الْمُخْتَارُ.

(ص178 – كتاب البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري – ولا يرث المفقود من أحد مات أي قبل الحكم بموته – المكتبة الشاملة الحديثة)

اعلم أن ظاهر الرواية عن الإمام أنه لا يحكم بموته إلا بموت أقرانه في السن من أهل بلده وقيل: من جميع البلدان،قال خواهر زاده: والأول أصح، قال السرخسي: وهذا أليق بالفقه لأن نصب المقادير بالرأي لا يجوز غير أن الغالب أن الإنسان لا يعيش بعد أقرانه وأنت خبير بأن التفحص عن موت الأقران غير ممكن أو فيه حرج فعن هذا اختار المشايخ تقديره بالسن ثم اختلفوا فاختار المصنف أنه تسعون وفي (الهداية) وهو الأرفق)

(قال في الكافي): و (الوجيز) وعليه الفتوى وروى الحسن مائة وعشرين سنة، وعن أبي يوسف مائة وفي (التتارخانية)معزيا إلى (الحاوي) وبه نأخذ وفيها عن (التهذيب) الفتوى على تقديره بثمانين واختار المتأخرون تقديره بستين وهذا الاختلاف إنما نشأ من اختلاف الرأي في أن الغالب هذا أو مطلقا، قال في (الفتح): والأحسن عندي التقدير بسبعين لخبر (أعمار أعمتي ما بين الستين إلى السبعين) وقيل: يفوض إلى رأي القاضي فأي وقت رأى المصلحة حكم بموته، قال الشارح: وهو المختار.

(ص292 – كتاب النهر الفائق شرح كنز الدقائق – كتاب المفقود – المكتبة الشاملة الحديثة)

وَاخْتَارَ الشَّيْخُ الْإِمَامُ أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ حَامِدٍ أَنَّهَا تِسْعُونَ سَنَةً لِأَنَّ الْغَالِبَ فِي أَعْمَارِ أَهْلِ زَمَانِنَا هَذَا، وَهَذَا لَا يَصِحُّ إلَّا أَنْ يُقَالَ: إنَّ الْغَالِبَ فِي الْأَعْمَارِ الطِّوَالِ فِي أَهْلِ زَمَانِنَا أَنْ لَا تَزِيدَ عَلَى ذَلِكَ، نَعَمْ الْمُتَأَخِّرُونَ الَّذِينَ اخْتَارُوا سِتِّينَ بَنَوْهُ عَلَى الْغَالِبِ مِنْ الْأَعْمَارِ. وَالْحَاصِلُ أَنَّ الِاخْتِلَافَ مَا جَاءَ إلَّا مِنْ اخْتِلَافِ الرَّأْيِ فِي أَنَّ الْغَالِبَ هَذَا فِي الطُّولِ أَوْ مُطْلَقًا، فَلِذَا قَالَ شَمْسُ الْأَئِمَّةِ: الْأَلْيَقُ بِطَرِيقِ الْفِقْهِ أَنْ لَا يُقَدَّرَ بِشَيْءٍ لِأَنَّ نَصْبَ الْمَقَادِيرِ بِالرَّأْيِ لَا يَكُونُ وَهَذَا هُوَ قَوْلُ الْمُصَنِّفِ الْأَقْيَسُ إلَخْ،وَلَكِنْ نَقُولُ: إذَا لَمْ يَبْقَ أَحَدٌ مِنْ أَقْرَانِهِ يُحْكَمُ بِمَوْتِهِ اعْتِبَارًا لِحَالِهِ بِحَالِ نَظَائِره، وَهَذَا رُجُوعٌ إلَى ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ. قَالَ الْمُصَنِّفُ (وَالْأَرْفَقُ) أَيْ بِالنَّاسِ (أَنْ يُقَدَّرَ بِتِسْعِينَ) وَأَرْفَقُ مِنْهُ التَّقْدِيرُ بِسِتِّينَ. وَعِنْدِي الْأَحْسَنُ سَبْعُونَ لِقَوْلِهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – «أَعْمَارُ أُمَّتِي مَا بَيْنَ السِّتِّينَ إلَى السَّبْعِينَ» فَكَانَتْ الْمُنْتَهَى غَالِبًا.

(ص149 – كتاب فتح القدير للكمال ابن الهمام – كتاب المفقود – المكتبة الشاملة الحديثة)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:15/4/1440

عیسوی تاریخ:23/12/2018

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2

اپنا تبصرہ بھیجیں