ماہانہ خرچے پر زکوة

فتویٰ نمبر:1086

سوال : ماہانہ خرچے پہ زکاة دینی ہوگی؟ اگر وہ ہاتھ میں موجود ہو زکاة ادا کرنے کی تاریخ میں ـ

الجواب باسم ملہم الصواب 

١۔ بعض اہل علم کے موقف کے مطابق : ماہانہ اخراجات انسان کی ضروریات میں شامل ہےاس لیے زکاة ادا کرتے وقت اگر ماہانہ خرچے کی رقم موجود بھی ہو تو وہ مال نصاب میں شامل نہیں کی جائے گی، کیونکہ اس رقم کا مصرف انسان کی بنیادی ضروریات ہے اور ضروریات زندگی پر زکاة فرض نہیں ۔

شرط وجوبھا العقل والبلوغ والاسلام والحریة وملک نصاب حولی فارغ عن الدین وحوائجہ الاصلیة تامّ ولو تقدیرا ۔(البحر الرائق : ، کتاب الزکاة ج٢، ص٢٠٦، الدر المختار : ج٢ص٢٥٨، سعید، ھندیة:ج ٢،ص١١،ط سعید)

ومنھا کون المال فاضلا عن الحاجة الاصلیة لان بہ یتحقق الغناء اذ المال المحتاج الیہ حاجة اصلیة لا یکون صاحبہ غنیا عنہ ۔( بدائع : ج ٢ص١١، ط سعید ، ھندیة : ج١،ص١٧٣)

سبب افتراضھا ملک نصاب حولی ۔۔۔الی قولہ۔۔۔۔فارغ عن حاجتہ الاصلیة لان المشغول بھا کالمعدوم وفسرہ ابن مالک بما یدفع عنہ الھلاک کثیابہ کالنفقة ودور السکنی وآلات الحرب والثیاب والمحتاج الیھا ۔ ۔ ۔ اوتقدیرا کالدین۔ ۔ ۔ فاذا کانت لہ دراھم مستحقة بصرفھا الی تلک الحوائج صارت کالمعدومة۔ (الدر المختار مع الشامی : ٢\١٧٩،١٧٤)

شرط فراغہ عن الحاجة الاصلیة لان المال المشغول بھا کالمعدوم وفسرھا فی شرح المجمع لابن المالک بما یدفع الھلاک عن الانسان تحقیقا او تقدیرا فالثانی کالدین والاول کالنفقة ـ (البحر الرائق : کتاب الزکاة ، ٢\٢٠٦ ، الھندیة : ١\١٧٣ رشیدیة ، بدائع : ٢\١١ ،ط سعید)

٢ ـ اس کے مقابل دیگر اہل علم کا موقف یہ ہے کہ نقدی پیسہ چونکہ ثمن عرفی ہے، کاروباری وتجارتی معاملات اس سے کیے جاتے ہیں ، اس لیے نقدی پر بھی بلا کسی فرق کے زکاة لازم ہوگی، اگرچہ وہ انسان کی ضرورت کے بقدر ہو یا ضرورت سے زائد ہو، لہذا زکاة دیتے وقت نصاب میں ماہانہ خرچے کی نقد رقم بھی شامل کی جائے گی ۔

لکن اعترضہ فی البحر بقول ۔ویخالفہ فی المعراج فی فصل زکاة العروض : ان الزکاة تجب فی النقد کیفما امسکہ للنماء او النفقة وکذا فی البدائع فی بحث النماء التقدیری ۔ ۔ ۔ وکذا فی التاتارخانیہ : نوی التجارة او لا۔ ۔ ۔ (شامی ٣\ ١٧٩،١٧٨)

حاصل کلام یہ ہے کہ 

دونوں قول کو مد نظر رکھتے ہوئے جس کے پاس وسعت ہو وہ خرچے کی رقم کو بھی شامل نصاب کرلے کیونکہ احتیاط اسی میں ہے اور جس کو فراخی میسر نہ ہو وہ زکاة میں شامل نہ کرے کیونکہ اس کے لیے فتوے میں گنجائش ہے ۔

واللہ اعلم بالصواب 

بنت عبدالباطن عفی عنھا

دارالافتا صفہ اسلامک ریسرچ سینڑر کراچی

٢٦رجب ١٤٣٩ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں