موئے مبارک کاحکم

کیافرماتے ہیں علماء کرا م اس مسئلہ کے بارے میں کہ:

ہمارے خاندان  میں ایک خاتون کے پاس آپﷺ کے موئے مبارک ہیں ،ان کو کسی نے دیے ہیں،ہرسال ربیع الاول میں اس کی تقریب رونمائی کرتی ہے۔پوچھنا یہ ہے کہ:

1۔۔تھ کیا موئے مبارک کا ہونا درست ہے یا نہیں ؟

2۔۔ادر وہ جناب نبی اکرم ﷺ کے ہی ہیں تو اس کے ساتھ  ہمارا کیا برتاؤ وسلوک  ہونا چاہیے؟

3۔۔یہ بال ایک سے دو ہوجاتے ہیں ۔ان خاتون کوجس نےدیا اس کے  بھی ایک سے دو ہوگئے تھے ،جس میں سے ایک ان کو دیا تھا  ، تو کیا موئے مبارک کا بڑھنا درست  بات ہے؟

                                                                                                                                                                                  سائل :محمد خالد

الجواب حامدا ومصلیا

1۔۔۔صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ  حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے موئے مبارک  کوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے درمیان تقسیم فرمایا ہے۔ لہذا کسی شخص  کے ایسے دعوے کومطلقا رد نہیں کیا جاسکتا،اسی وجہ سے صحابہ کرام ، تابعین اور اولیاء عظام  سے اس کی خاص حفاظت  اور تبرک حاصل کرنے  کا انتظام  رہاہے۔

2۔۔۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب موئے مبارک کی نسبت  اگر صحیح ہے تب تواس کی انتہائی تعظیم کرنے کاحکم ہے ، اور اگر اس بات کا علم یقینی نہ ہوتوچونکہ صحیح ہونے کا احتمال ہےاس  بناء پراس کی تعظیم کرنے اوراس کی زیارت کےلیے جانے میں کوئی مضائقہ نہیں  ۔

3۔۔۔ موئے مبارک کا یہ خاصہ(کہ وہ ایک سے دو ہوجاتے ہیں ) ہمارے علم میں نہیں ہے،اس لیےکچھ کہنا مشکل ہے۔

صحيح البخاري (7/ 160)

عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ، قَالَ: أَرْسَلَنِي أَهْلِي إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ – وَقَبَضَ إِسْرَائِيلُ ثَلاَثَ أَصَابِعَ مِنْ قُصَّةٍ – فِيهِ شَعَرٌ مِنْ شَعَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ إِذَا أَصَابَ الإِنْسَانَ عَيْنٌ أَوْ شَيْءٌ بَعَثَ إِلَيْهَا مِخْضَبَهُ، فَاطَّلَعْتُ فِي الجُلْجُلِ، فَرَأَيْتُ شَعَرَاتٍ حُمْرًا.

شرح صحيح البخارى لابن بطال (9/ 148)

 فيه: إسرائيل، عن عثمان بن عبدالله بن موهب، قال: أرسلنى أهلى إلى أم سلمة بقدح من ماء، وقبض إسرائيل ثلاث أصابع من قصة فيه شعر من شعر النبى (صلى الله عليه وسلم) ، وكان إذا أصاب الإنسان عين، أو شىء بعث إليها مخضبه، فاطلعت فى الجلجل، فرأيت شعرات حمرا

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 801)

وفي السراج توقف الإمام في أربع عشرة مسألةونقل لا أدري عن الأئمة بل عن النبي – صلى الله عليه وسلم – وعن جبريل أيضا،(قوله بل عن النبي – صلى الله عليه وسلم – وعن جبريل أيضا) في الكرماني «سئل رسول الله – صلى الله عليه وسلم – عن أفضل البقاع فقال: لا أدري حتى أسأل جبريل فسأله فقال: لا أدري حتى أسأل ربي فقال عز وجل: خير البقاع المساجد، وخير أهلها أولهم دخولا وآخرهم خروجا» ) وفي الحقائق: أنه تنبه لكل مفت أن لا يستنكف من التوقف فيما لا وقوف له عليه۔

الفتاوى الهندية (3/ 116)

ولو أخذ شعر النبي – صلى الله عليه وسلم – ممن عنده وأعطاه هدية عظيمة لا على وجه البيع والشراء لا بأس به كذا في السراجية.

         امداد الفتاوی جدید ۔ جدید مطول حاشیہ شبیر احمد القاسمی( 8/472)

” اگر اس کے موئے مبارک ہونے کی کچھ سند نہیں تو اس کی تعظیم وتکریم لاحاصل۔ اور اگر کوئی سند ہے تو اس کی تعظیم کرنے میں اجر وثواب ہے، بشرطیکہ حد شرع سے نہ بڑھ جاوے اور پانی میں غوطہ دے کر اس کا پینا بھی باعثِ خیروبرکت وشفاء امراض ظاہری وباطنی ہے۔“

         

 

          فتاوی رحیمیہ 🙁 3/41)

” حدیث شریف سے ثابت ہے کہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے موئے مبارک صحابہ ٔ کرام کو تقسیم  فرماتے تھے ۔ فتاویٰ ابن تیمیہ میں  ہے ۔”فان النبی ﷺحلق راسہ واعطیٰ نصفہ لا بی طلحۃ ونصفہ قسمہ بین الناس“! تو اگر کسی کے پاس ہو تو تعجب کی بات نہیں  ۔ اگر اس کی صحیح اور قابل اعتماد سند ہو تو اس کی تعظیم کی جائے ۔ا گر سند نہ ہو اور مصنوعی ہونے کا بھی یقین نہیں  تو خاموشی اختیار کی جائے نہ اس کی تصدیق کرے اور نہ جھٹلائے ۔ نہ تعظیم کرے اور نہ اہانت کرے “۔

        کفایت المفتی 🙁 9/66)

اگر آنحضرت ﷺ کے موئے مبارک اصلی ہوں اور اس کا ثبوت ہو کہ حضورﷺ کے بال ہیں تو ان کو حفاظت اور عزت سے رکھنا ایمان کی بات ہے (۱) مگر اس کا بھی میلہ کرنا  یا خوشبو وغیرہ چڑھانا یا اس  سے مرادیں مانگنا یہ سب ناجائز ہے۔

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

محمد رفیق غفرلہ ولوالدیہ

نور محمد ریسرچ   سینٹر

دھوراجی کراچی

17جمادی الثانی1441

12 فرورى 2020

اپنا تبصرہ بھیجیں