مشتری کو کہنا کہ اگر اتنے کی خرید ہو تو بیوی مجھ پر حرام

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:

 ایک آدمی کپڑے کا کاروبارکرتا ہے اس کے پاس ایک گاہک آیا  اور کہنے لگا کہ یہ کپڑا مجھےپندرہ سو(1500) میں بیچ دو  اور اس پر اصرار کرنے لگا اس  نے تنگ آکر  کہا کہ اس کپڑےکی پندرہ سومیں تو میری خرید بھی نہیں ہے اگر پندرہ سو سے کم کی خرید ہوں ہو تو میری بیوی مجھ پر حرام ہے ،پھر جب حساب کیا تو اس  کپڑے کی خرید  1480 تھی ،البتہ کرایہ وغیرہ کے اخراجات ملا کر 1510 کا پڑ رہا ہے  تو کیا میری بیوی مجھ پر حرام ہوگئی؟

                                                                                                                                                            سائل: عارف عبدالرحیم

الجواب حامدا ومصلیا

سوال میں ذکر کردہ صورت اگر واقعی درست ہےکہ سائل نے گاہک کو یہ کہاکہ” اگر میری خرید  پندرہ سو(1500) سے کم کی ہوئی تو میری بیوی مجھ پرحرام ہے“ تو اس صورت میں اگر مارکیٹ کے عرف میں قیمت خرید  میں اخراجات  وغیرہ بھی ملائے جاتے ہوں تو پھر سائل کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوئی ،لیکن اگر عرف میں قیمت خرید کا اطلاق صرف اسی قیمت پرہوتا ہے جتنے میں خریدی تھی،جیسا کہ ظاہری الفاظ سے بھی یہی سمجھ آرہاہے تو اس صورت میں سائل کی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوگئی جس کا حکم یہ ہے کہ بیوی نکاح سے نکل گئی۔البتہ باہمی رضامندی سے دوبارہ دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہوسکتا ہے لہذا  احتیاط اسی میں ہے کہ تجدید نکاح کرلیا جائے۔تاہم اس کے بعد شوہر کے پاس دو طلاق کا اختیار باقی رہ جائےگا ۔

الفتاوى الهندية (2/ 68)

الأصل أن الألفاظ المستعملة في الأيمان مبنية على العرف عندنا كذا في الكافي.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 743)

(الأيمان مبنية على الألفاظ لا على الأغراض فلو) اغتاظ على غيره و (حلف أن لا يشتري له شيئا بفلس فاشترى له بدرهم) أو أكثر (شيئا لم يحنث۔(قوله الأيمان مبنية على الألفاظ إلخ) أي الألفاظ العرفية بقرينة ما قبله واحترز به عن القول ببنائها على عرف اللغة أو عرف القرآن ففي حلفه لا يركب دابة ولا يجلس على وتد، لا يحنث بركوبه إنسانا وجلوسه على جبل وإن كان الأول في عرف اللغة دابة، والثاني في القرآن وتدا كما سيأتي وقوله: لا على الأغراض أي المقاصد والنيات۔

وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 136)

وفي البحر أيضا عن النهاية في مسألة الرقم ولا يقول قام علي بكذا ولا قيمته كذا ولا اشتريته بكذا تحرزا عن الكذب اهـ. وبه يظهر أن ما يفيده كلام الشارح من أنه يقول: قام علي بكذا غير مراد بل يظهر لي أنه لا يقول ذلك في مسألة الهبة أيضا؛ لأنه يوهم أنه ملكه بهذه القيمة مع أنه ملكه بلا عوض ففيه شبهة الكذب۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 223)

ويباع مرابحة وتولية على الكل اعتبارا للعرف؛ لأن العادة فيما بين التجار أنهم يلحقون هذه المؤن برأس المال ويعدونها منه، وعرف المسلمين وعادتهم حجة مطلقة قال النبي: – عليه الصلاة والسلام – «ما رآه المسلمون حسنا فهو عند الله حسن» إلا أنه لا يقول عند البيع: اشتريته بكذا ولكن يقول: قام علي بكذا؛ لأن الأول كذب والثاني صدق…………………………………..

      واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

محمد رفیق غفرلہ ولوالدیہ

نور محمد ریسرچ   سینٹر  

دھوراجی کراچی

9/ رجب  1441

5/مارچ/ 2020

سوال میں ذکر کردہ صورت اگر واقعی درست ہےکہ سائل نے گاہک کو یہ کہاکہ” اگر میری خرید  پندرہ سو(1500) سے کم کی ہوئی تو میری بیوی مجھ پرحرام ہے“ تو اس صورت میں اگر مارکیٹ کے عرف میں قیمت خرید  میں اخراجات  وغیرہ بھی ملائے جاتے ہوں تو پھر سائل کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوئی ،لیکن اگر عرف میں قیمت خرید کا اطلاق صرف اسی قیمت پرہوتا ہے جتنے میں خریدی تھی،جیسا کہ ظاہری الفاظ سے بھی یہی سمجھ آرہاہے تو اس صورت میں سائل کی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوگئی جس کا حکم یہ ہے کہ بیوی نکاح سے نکل گئی۔البتہ باہمی رضامندی سے دوبارہ دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہوسکتا ہے لہذا  احتیاط اسی میں ہے کہ تجدید نکاح کرلیا جائے۔تاہم اس کے بعد شوہر کے پاس دو طلاق کا اختیار باقی رہ جائےگا ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں