پاک اور ناپاک کپڑے ساتھ دھونے کا حکم

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!

السلام علیکم و رحمۃ الله و بركاته!

ایک کپڑے کو میں نے ایک بالٹی میں ڈالا اور اس کے ساتھ کافی سارے کپڑے اور بھی ڈالے اور اس میں اوپر سے نل کھول کر کافی دیر تک پانی بہنے دیا۔ یعنی کہ جاری پانی کے حکم میں کردیا

بعد میں جب کپڑے سوکھ گئے تو دیکھا تو ان کپڑوں میں سے کسی ایک کپڑے میں ناپاکی لگی ہوئی تھی تھوڑی سی

اس طرح کیا وہ تمام کپڑے جو بالٹی میں موجود تھے کیا وہ بھی ناپاک ہو گئے ہوں گے یا نہیں؟؟؟

جب کہ مجھے کچھ یاد نہیں آ رہا کہ اس کپڑے کے ساتھ کون کون سے کپڑے موجود تھے تو ایسی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے

الجواب باسم ملہم الصواب

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

مذکورہ صورت میں جب سارے کپڑوں کو بالٹی میں ڈال کر اوپر سے پانی جاری کر دیا تھا تو یہ جاری پانی بن گیا تھا،جاری پانی میں دھلے گئے کپڑے پاک ہو جاتے ہیں،لہذا مذکورہ کپڑے بھی پاک سمجھے جائیں گے،البتہ صرف وہ ہی کپڑے دوبارہ دھوئے جائیں گے، جن میں نجاست لگی ہوئی رہ گئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

1-حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 161)

“و” يطهر محل النجاسة “غير المرئية بغسلها ثلاثاً” وجوباً، وسبعاً مع الترتيب ندباً في نجاسة الكلب خروجاً من الخلاف، “والعصر كل مرة” تقديراً لغلبة.

یعني اشتراط الغسل والعصر ثلاثاً إنما هو إذا غمسه في إجانة، أما إذا غمسه في ماء جار حتى جرى عليه الماء أو صب عليه ماءً كثيراً بحيث يخرج ما أصابه من الماء ويخلفه غيره ثلاثاً فقد طهر مطلقاً بلا اشتراط عصر وتجفيف وتكرار غمس، هو المختار، والمعتبر فيه غلبة الظن، هو الصحيح، كما في السراج، ولا فرق في ذلك بين بساط وغيره، وقولهم يوضع البساط في الماء الجاري ليلةً إنما هو لقطع الوسوسة”۔

2-الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 331)

” (و) يطهر محل (غيرها) أي: غير مرئية (بغلبة ظن غاسل) لو مكلفاً وإلا فمستعمل (طهارة محلها) بلا عدد، به يفتى. (وقدر) ذلك لموسوس (بغسل وعصر ثلاثاً) أو سبعاً (فيما ينعصر) مبالغاً بحيث لا يقطر۔ ۔ ۔ وهذا كله إذا غسل في إجانة، أما لو غسل في غدير أو صب عليه ماء كثير، أو جرى عليه الماء طهر مطلقاً بلا شرط عصر وتجفيف وتكرار غمس، هو المختار۔

فقط

واللہ اعلم باالصواب

14 ربیع الاول 1443ھ

21 اکتوبر 2021 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں