پاکستان کی خارجہ پالیسی۔ پہلی قسط

ہاکستان کی فارن پالیسی کے بنیادی پلرز سمجھ لیجئے تاکہ آپ کو مشرقی وسطیٰ کے حوالے سے پاکستان کے اقدامات کا تجزیہ کرنے میں آسانی رہے۔ اس موضوع کو دو سے تین قسطوں میں انشاء اللہ نمٹانے کی کوشش کرونگا۔

(01) دنیا میں پاکستان کے صرف دو ایسے دوست ملک ہیں جن کے لئے پاکستان برضاء و خوشی کسی بھی حد تک جا سکتا ہے، اس کے لئے ان ممالک کا صرف کال کرنا کافی ہے۔ یہ دو ممالک سعودی عرب اور چین ہیں۔

(الف) حجاز مقدس صدیوں سے اپنی پیداوار کے لحاظ صفر تھا نہ اس کی کوئی صنعت تھی اور نہ ہی زراعت نتیجہ یہ کہ غربت بے تحاشا تھی۔ قیام پاکستان تک برصغیر کے نواب، رئیس اور سلاطین اپنی زکوٰۃ و عطیات اہل مکہ و مدینہ پر خرچ کرنے کو ہی ترجیح دیا کرتے تھے جو حج کے موقع پر بھیجے جاتے تھے اور یہ اس پیمانے پر ہوتے کہ ان کے پورے سال کی ضرورت پوری ہوتی تھی۔ آگے چل کر جب سعودیہ بنا اور تیل دریافت ہوا تو یہ عرب اپنے پرانے محسنوں کو نہیں بھولے۔ مسلمان ممالک تو وسطی ایشیا اور مشرق بعید میں بھی ہیں لیکن اگر آپ غور کریں تو سعودی عرب کی توجہ کا مرکز صرف پاکستان اور ہندوستان کے مسلمان ہیں۔ بطور ریاست عرب دنیا سے باہر وہ صرف پاکستان کے لئے اپنے خزانوں کا منہ کھولتے ہیں اور جو مانگا جاتا ہے جتنا مانگا جاتا ہے وہ دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے پاکستان اپنی اشد ضرورت کے موقع پر ہی مانگتا ہے۔ جب تک سعودی عرب موجود ہے دنیا کی کوئی معاشی پابندی پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور یہ بات امریکہ بہت اچھی طرح جانتا ہے۔ سعودی عرب نے پاکستان کی جو علانیہ مدد آج تک کر رکھی ہے وہ اس کی خفیہ مدد کا بمشکل دس فیصد ہے۔ چونکہ پاکستان کو معاشی تباہی سے بچانے کا ذمہ سعودی عرب اپنے ذمے لے چکا ہے اور دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کو معاشی طور پر زمیں بوس نہیں کیا جا سکتا اس لئے جوابا سعودی عرب کا عسکری دفاع پاکستان اپنے ذمے لے چکا۔ یوں سعودی ہمارا معاشی اور ہم سعودیوں کا عسکری دفاع کرتے ہیں اور یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔ (اس کی مزیدتفصیل اگلی قسط میں ایرانی انقلاب کے پس منظر میں آئیگی)

(ب) جب چین میں انقلاب برپا ہوا تو یہ کمیونسٹ انقلاب تھا اور پوری دنیا منہ میں انگلیاں دیے سکتے کی حالت میں تھی کہ اسے قبول کریں یا رد کریں ؟ اس سکتے میں جدید چین کو تسلیم کرنے والی جو پہلی آواز بلند ہوئی وہ پاکستان کی تھی۔ اس جدید چین کے کسی ایئرپوٹ پر جو پہلی بین الاقوامی پرواز اتری وہ پی آئی اے تھی۔ دنیا نے ہم سے چینوں کے بارے میں رائے مانگنی شروع کی کہ دکھتے کیسے ہیں ؟ سوچتے کیسے ہیں ؟ بولتے کیسے ہیں اور پیش کیسے آتے ہیں ؟ دھیرے دھیرے باقی دنیا بھی انہیں قبول کرنے لگی اور اس میں ہمارے دفتر خارجہ کا کلیدی کردار تھا۔ پھر وہ وقت آیا کہ امریکہ نے اس جدید چین سے تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ بھی ہمارے ہی پاس آیا کہ پلیز چین سے ہمارا مصافحہ کروایئے نا ! پاکستان نے بیک ڈور ڈپلومیسی شروع کی اور چین سے امریکہ کے تعلقات قائم کروا دیے۔ اس ابتدائی عرصے میں دنیا بھر سے چین کے رشتے استوار کروانے میں پاکستان کردار اتنا بڑا ہے کہ چینی اسے بھلائے نہیں بھولتے۔ چین میں عوامی استقبال صرف ایک ہی بین الاقوامی سربراہ کا ہوا ہے جو ذوالفقار علی بھٹو مرحوم ہیں۔ ایک ایسا استقبال جس میں بیجنگ کی سڑکوں کے اطراف کھڑے چینی عوام ہاتھ میں جھنڈیاں لئے پاک چین دوستی کے نعرے بلند کرتے رہے۔ چین کے لئے پاکستان کی ان خدمات کا جواب چین کی جانب سے یوں دیا گیا کہ نہ صرف اس نے پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری شروع کی بلکہ پاکستان کے دفاع کو مضبوط کرنے کے لئے دفاعی پیداوار کے شاندار ادارے بھی کھڑے کردیے۔ آج ہم نہ صرف ٹینک اور بکتر بند بنا رہے ہیں بلکہ چین کی مدد سے ہی عسکری طیارہ سازی کے ساتھ ساتھ نیول شپس بھی بنا رہے ہیں جبکہ میزائل پروگرام میں انکی مدد تو کھلا راز ہےجس سے ہم آلات حرب میں خود کفیل ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں امریکہ جب کسی ملک کو برباد کرنے لگتا ہے تو پہلے اس پر پابندیاں لگاتا ہے اور اسکے بعد اقوام متحدہ کی قرار داد کے سہارے اس پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔ امریکہ یہ حکمت عملی پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کر سکتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر پاکستان کے خلاف اقوام متحدہ میں قرارداد لائی گئی تو چین اسے ویٹو کرنے میں ایک منٹ کی بھی تاخیر نہیں کرے گا۔ جس طرح مشرق وسطیٰ میں اسرائیل امریکہ کی ناک کا بال ہے اسی طرح جنوبی ایشیا میں پاکستان چین کی ناک کا بال ہے۔

پاکستان آج کل بہت تیزی سے سعودی عرب کے چین سے تعلقات اسی سطح تک لے جانے کے مشن پر کام کر رہا ہے جس سطح کے پاک چین تعلقات ہیں اور ایسا موجودہ سعودی قیادت کی خواہش پر کیا جا رہا ہے کیونکہ انہیں سمجھ آ گیا ہے کہ صرف امریکہ پر انحصار ایک مہلک غلطی تھی۔ (جاری ہے)

اپنا تبصرہ بھیجیں