پرندوں کی بیٹ سے نجس برتن کی چھینٹوں کے کپڑوں پر لگنے کا حکم

سوال:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

باجی میرے پاس کچھ پرندے ہیں جن کے دانہ پانی کے بیٹ لگے ہوئے برتن جب میں دھوتی ہوں تو اکثر چھینٹیں کپڑوں پہ پڑ جاتی ہیں۔ کیا ان کپڑوں میں نماز ہو جاے گی؟

(ان کی خوراک میں دانہ و سبزی کے ساتھ انڈا اور جھینگہ پاوڈر بھی شامل ہے)

براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔

جواب:وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ!

تمہید کے طور پر ملاحظہ ہو:

پرندوں کی نجاست کے اعتبار سے تین اقسام ہیں :

1) ایک تو وہ پرندے جو حلال ہیں، لیکن انسانوں کے درمیان میں پروان چڑھتے ہیں،جیسے :مرغی ،بطخ،مرغابی وغیرہ ۔ان کی بیٹ بالاتفاق نجاست غلیظہ ہے ۔

2) دوسرے وہ پرندے جو حلال ہیں ،لیکن فضا میں پرورش پاتے ہیں ،جیسے :فاختہ، کبوتر، گوریا وغیرہ۔ان کی بیٹ پاک ہے ۔

3) تیسرے وہ پرندے جو حرام ہیں یعنی جن کا گوشت نہیں کھایا جاتا،جیسے :شکرا ،چیل عقاب وغیرہ۔ان کی بیٹ راجح قول کے مطابق نجاست خفیفہ ہے ۔

اب سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر اس برتن میں مرغی وغیرہ (پہلی قسم) کی بیٹ تھی اور دھونے کی صورت میں نجاست کی چھینٹیں کپڑوں پر بھی لگی ہیں تو اگر تمام چھینٹیں ملا کر ایک درہم (پھیلاؤ میں 5.94 مربع سینٹی میٹر)یا اس سے کم ہو ں تو وہ معاف ہیں ،نماز درست ہوجائے گی، البتہ دھو لینا بہتر ہے۔ جان بوجھ کر ایسے ہی نماز پڑھنا مکروہ ہے اور اگر ایک درہم سے زائد لگی ہو تو دھوئے بغیر نماز نہیں ہوگی۔

اگر اس برتن میں حرام پرندوں کی بیٹ تھی(تیسری قسم) تو چونکہ ان کی بیٹ نجاستِ خفیفہ ہے،لہذا جس جگہ نجاست کی چھینٹیں لگی ہیں اگر وہ چھینٹیں مل کر اس جگہ کی چوتھائی سے کم ہوں تو معاف ہیں، لیکن چوتھائی یا اس سے زیادہ معاف نہیں ، دھوئے بغیر نماز نہیں ہوگی،جیسے: آستین میں لگیں تو آستین کی چوتھائی سے کم معاف ہے ،دامن میں لگیں تو اس کے چوتھائی سے کم معاف ہیں۔

ان دونوں صورتوں میں اگر چھینٹیں بہت معمولی یعنی سوئی نوک کے برابر ہوں تو وہ معاف ہیں۔

رہی بات ان پرندوں کی جن کی بیٹ پاک ہے (دوسری قسم) تو ان پرندوں کی بیٹ والے پانی کی چھینٹوں سے کپڑے ناپاک نہیں ہوں گے۔

بہر حال نجس برتن کے دھونے میں احتیاط سے کام لیں تاکہ پانی کی چھینٹیں زیادہ نہ اُڑیں، مثلاً: اونچی جگہ بیٹھ کر دھوئیں یا پانی نرم انداز میں ڈالیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

(1) وقدر الدرھم وما دونہ من النجس المغلظ کالدم، والبول، والخمر، وخرء الدجاج، وبول الحمار جازت الصلاۃ معہ، وإن زاد لم تجز۔ (ہدایۃ أشرفیہ 1/ 74)

(2) وأما خرء ما یؤکل لحمہ من الطیور سوی الدجاجۃ، والبط، والإوز ونحوہا فطاہر عندنا خلافا للشافعي، وذلک کالحمامۃ والعصفور ونحوہا۔ (وقولہ) ولنا إنا أجمعنا علی اقتناء الحمامات وترکہا في المساجد مع الأمر بتطہیرہا فعن عائشۃ رضي اﷲ عنہا قالت: أمر رسول اﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم بناء المساجد فی الدور، وأن تنظف وتطیب الخ۔ (غنیۃ المستملي شرح کبیري، مکتبہ أشرفیہ دیوبند 149، ہکذا في الطحطاوي علی مراقي الفلاح، مکتبہ دارالکتاب دیوبند: 155)

(3)وإذا وقع في البئر خرء الحمام أو خرء العصفور لا یفسدہ، وہذا مذہبنا۔ ’’الخانیۃ‘‘ خرء ما یؤکل لحمہ من الطیور لا یفسد الماء إلا الدجاجۃ المخلّاۃ، وفي روایۃ: البط والإوز بمنزلۃ الدجاجۃ الخ۔ (تاتارخانیۃ، طہارۃ، فصل المیاہ، مکتبہ زکریا دیوبند1/324، رقم:581)

(4) والثالث: خرء طیر لا یؤکل وقد اختلف الامامان الہندواني والکرخي في ما نقلاہ عن أئمتنا فیہ، فروی الہندواني أنہ مخفف عند الإمام، مغلظ عندہما، وروی الکرخي أنہ طاہر عندہما، مغلظ عند محمد، وقیل: إن أبا یوسف مع أبي حنیفۃ في التخفیف أیضا، فاتفقوا علی أنہ مغلظ عند محمد وأما أبویوسف، فلہ ثلاث روایات، الطہارۃ، والتغلیظ، والتخفیف، وأما أبوحنیفۃ فروایتان: التخفیف والطہارۃ، وأما التغلیظ فلم ینقل عنہ، وصحّح قاضي خاں في شرح الجامع الصغیر: أنہ نجس عند أبي حنیفۃ وأبي یوسف حتی لو وقع في الماء القلیل أفسدہ، وقیل: لا یفسد لتعذر صون الأواني عنہ، وصحح الشارح وجماعۃ روایۃ الہندواني، فالتخفیف عندہ لعموم البلوی وہي موجبۃ للتخفیف، أما التغلیظ عندہما فاستشکلہ الشارح الزیلعي بأن اختلاف العلماء یورث التخفیف عندہما، وقد وجد، فإنہ طاہر في روایۃ عن أبي حنیفۃ، وعن أبي یوسف فکان للاجتہاد فیہ مساغ الخ۔ (البحرالرائق، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مکتبہ زکریا دیوبند جدید 1/ 407، کوئٹہ 1/ 234۔235)

(5) ( وخرء ) كل طير لا يذرق في الهواء كبط أهلي ( ودجاج ) أما ما يذرق فيه ، فإن مأكولا فطاهر وإلا فمخفف ( وروث وخثي ) أفاد بهما نجاسة خرء كل حيوان غير الطيور رد المحتار 2/482)

فقط واللہ اعلم بالصواب

1/دسمبر/۲۰۲۱

25/ربیع الثانی/۱۴۴۳ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں