قرض

سوال: السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب ایک سوال کا جواب دے دیجئے. ایک شخص نے ایک دوسرے شخص کو کہا کے میں  تمھیں یورپ میں گھر لے کر دیتا ہوں اور وہ اس شخص سے تین ہزار یورو لے کر جاتا ہے اور اپنے نام کا چیک دے دیتا ہے  اور تین مہینے کا وقت لیتا ہے بعد میں دوسرا شخص اپنا سب کچھ دے کر دوسرے لوگوں سے پیسے ادھار لے کر پیسے اکٹھے کرتا ہے کچھ رقم وہ پاکستان سے یورپ میں 152 کے ریٹ سے منگواتا ہے. اور وہ  یورو اس بندے کو دیتا ہے جب وقت قریب آتا ہے تو وہ بندہ اسے کہتا ہے کہ گھر پہلے میرے نام پے ہو گا اور پھر پانچ سال کے بعد تمہارے نام ہو سکتا ہے یا پھر تم تین ہزار پانچ سو یورو اور دو تو پھر تمھارے نام ہو گا. اس پر وہ بندہ اسے کہتا ہے کہ رہنے دو میں نہیں لیتا تین ہزار یورو کا نقصان کر لیتا ہوں لیکن پہلا بندہ اسے کہتا ہے کہ تم پیسے دے دو میں اپنے نام پے لے لیتا ہوں اور تین مہینے میں تمھیں پیسے دے دوں گا اس پر وہ مان جاتا ہے اور ریٹ بھی تحت کر دیتے ہیں کہ 156 کے ریٹ سے مجھے پیسے دو گے اب مسئلہ یہ ہے کہ اس بندے نے ایک سال سے اوپر وقت ہو گیا لیکن ابھی تک اس نے پیسے نہیں دیے اس نے گھر کے اندر بندے رکھے ہیں اور مہینے کے حساب سے ان سے پیسے بھی لے رہا ہے اور اپنے تمام کام سیدھے کر رہا ہے جس بندے نے اسے دوسرے لوگوں سے پیسے لے کر دیے ہیں ان کو بھی اس نے دینے ہیں اور  اس بندے کے بھائی نے کوئی پلاٹ کے لیے کسی دوسرے بندے کو دس لاکھ دیا تھا لیکن اس بندے کی وجہ سے پیسے وقت پر نا ملنے کی وجہ سے پانچ لاکھ کا نقصان ہو گیا اور دوسرے بندوں کو اس نے اپنا زیور دے کر جان چھوڑا لی. اب یورو کا ریٹ 172 ہے اور وہ بندہ کہتا ہے کہ میں تمہیں پاکستان میں دوں گا ایک سال بھی گزر گیا زیور بھی گیا اور وہ اسے 156 کے ریٹ سے دے گا. اور وہ بندہ جب یورپ میں پیسے منگواتا ہے تو آج 172 کا ریٹ ہے نقصان کے پیسے بھی وہ دے زیور کا جو نقصان ہوا وہ بھی اور 172 سے یہاں پر آتے ہوئے اسے آدھے بھی نا ملے. اور وہ کرایہ بھی کھا رہا ہے اور اپنے سارے کام سیدھے کر رہا ہے اس کے بارے میں کیا حکم ہے کیا یہ درست ہے. انصاف کا تقاضہ کیا ہے مہربانی کرکے اس کا جواب جلدی دے دیں

جزاک اللہ خیر

الجواب حامدا ومصلیا

بنیادی طور پر اصول یہی ہے کہ قرض کی ادائیگی اسی کرنسی میں کی جائے جس میں  مقروض شخص نےقرض  وصول کیاتھا، البتہ  اگر ادائیگی کے وقت فریقین کسی دوسری کرنسی میں ادائیگی  پر متفق ہو جائیں تو  اس میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ اس کی شرط یہ ہے کہ   ادائیگی کے دن دوسری کرنسی کے   بازاری نرخ کے مطابق رقم دی جائے، لہذا جس دن قرض لیا تھا  دوسری کرنسی سے اس کی واپسی کی صورت میں اس دن  کی قیمت معتبر نہیں ہوگی بلکہ ادائیگی کے وقت کی قیمت معتبر ہوگی ،اسی طرح جتنا قرض لیا ہے اتنا ہی واپس کیا جائے، اس میں کمی یا زیادتی کرنا سود ہوگا۔

مذکورہ اصول کے مطابق  جب ایک شخص نے دوسرے شخص کو یورو کی صورت میں قرضہ دیا ہے تو ادائیگی کے وقت بہتر تو یہ ہے کہ یورو کی صورت میں ہی قرضہ واپس کرے البتہ اگر ان دونوں شخصوں کا آپس میں اتفاق ہو جاتا ہے کہ پاکستانی کرنسی میں قرضہ واپس کیا جائےگا تو اس صورت میں  پاکستانی کرنسی کی موجودہ (یعنی ادائیگی  کے وقت کی )قیمت  کے مطابق رقم دی جائے گی(  جوکہ آج 2020/1/24 میں 1یورو  پاکستانی 170.61 ہے) لہذا دوسرے شخص کا یہ کہنا کہ میں  156 کے حساب سے قرضہ واپس کرونگا  شرعا درست نہیں ہے،اسی طرح   پہلے شخص کا  170 کے حساب سے زائد وصول کرنا  بھی درست نہیں ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 162)

“(استقرض من الفلوس الرائجة والعدالي فكسدت فعليه مثلها كاسدة) و (لا) يغرم (قيمتها) وكذا كل ما يكال ويوزن لما مر أنه مضمون بمثله فلا عبرة بغلائه ورخصه ذكره في المبسوط من غير خلاف وجعله في البزازية وغيرها قول الإمام وعند الثاني عليه قيمتها يوم القبض وعند الثالث قيمتها في آخر يوم رواجها وعليه الفتوى”

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 166)

“وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام……لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي”

الموسوعة الفقهية الكويتية (33/ 124)

“فإنه يثبت في ذمته مثلها لا عينها ولو كانت قائمة…… وفي الحالين إذا رد المقترض المثل وجب على المقرض قبوله، سواء رخص سعره أو غلا أو بقي على حاله، وذلك لأن المثل يضمن في الغصب والإتلاف بمثله، فكذا هاهنا، فإن أعوز المثل – أي تعذر – فعليه قيمته يوم إعوازه؛ لأنه يوم ثبوت القيمة في الذمة”

فقہ البیوع۲/۷۳۳

“ویجوز فیھا النسیئۃ ان وقعت المبادلۃ بغیر جنسھا، مثل ان تباع الدولارات الامریکیۃ بالربیات الباکستانیۃ، بشرط ان تکون المبادلۃ بسعر یوم المبادلۃ، حتی لا تکون ذریعۃ للربا”

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (1/ 279)

“(سُئِلَ) فِي رَجُلٍ اسْتَقْرَضَ مِنْ آخَرَ مَبْلَغًا مِنْ الدَّرَاهِمِ وَتَصَرَّفَ بِهَا ثُمَّ غَلَا سِعْرُهَا فَهَلْ عَلَيْهِ رَدُّ مِثْلِهَا؟

(الْجَوَابُ) : نَعَمْ وَلَا يُنْظَرُ إلَى غَلَاءِ الدَّرَاهِمِ وَرُخْصِهَا كَمَا صَرَّحَ بِهِ فِي الْمِنَحِ فِي فَصْلِ الْقَرْضِ مُسْتَمَدًّا مِنْ مَجْمَعِ الْفَتَاوَى”

وفیہ ایضا…

“الدیون تقضی بامثلھا”

واللہ اعلم بالصواب

حنظلہ عمیر بن عمیر رشید

نور محمد ریسرچ سینٹر

دھوراجی کراچی

۲۸/۵/۱۴۴۱ھ

ء2020/1/24

مفتی انس  صاحب دامت برکاتہم

الجواب صحیح

مولانا عثمان صاحب دامت برکاتہم

الجواب صحیح

حضرت مفتی سعید احمد صاحب دامت برکاتہم

الجواب صحیح

اپنا تبصرہ بھیجیں