قرات خلف الامام نہ کرنے کی دلیل

سوال: قرات خلف الامام  نہ کرنے کی کیا دلیل ہے ؟

الجواب حامداً ومصلیاً 

امام کے پیچھے مقتدی کو سورہ فاتحہ پڑھنے کے بارے میں صحابہ کرام ؓ کے زمانے سے اختلاف ہے ،بعض صحابہ کرام ؓ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کو درست مانتے تھے جبکہ اکثر اور جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم درست نہیں مانتے تھے ۔پھر یہ اختلاف تابعین، تبعِ تابعین اور ائمہ مجتہدین مین بھی منتقل ہوا ، اور وہی اختلاف آج تک چلا آرہا ہے ۔اور اس اختلاف کی اصل بنیاد یہ ہے کہ احادیث میں دونوں طرح کی روایات ہیں ،بعض سے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا ثابت ہوتا ہے اور بعض سے نہ پڑھنا واضح طور پر ثابت ہوتاہے ، چنانچہ حنفیہ نے ان احادیث کو ترجیح دی اور عمل کے لئے اختیار کیا جن میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ یا قراءت پڑھنے کا ثبوت نہیں ہے۔جن کی تایید قرآن سے بھی ہوتی ہے اور جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے بھی ہوتی ہے۔ذیل میں مختصراً چند دلائل ملاحظہ ہو

قرآن مجید میں ہے:
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الاعراف۲۰۴)
ترجمہ :اور جب قرآن پڑھاجائےتو اس کی طرف کان لگائے رہو ،اور چپ رہو تا کہ تم پر رحم ہو۔

یہ آیت نماز کے اندر امام کی قرات کے متعلق نازل ہوئی ہےیعنی جب امام نماز کے اندر قرات کرے تو مقتدیوں پر لازم ہے کہ امام کی قرات سنیں اور خاموش رہیں ۔اس پر تمام اہلِ اسلام اور ائمہ دین کا یعنی صحابہ کرامؓ وتابعینؒ وتبع تابعینؒ اور جمہور سلف وخلف کا اجماع ہے،جیسا کہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ ،امام احمد رحمہ اللہ سے اس پر اجماع نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

قال أحمد :أجمع الناس علی أنھا نزلت فی الصلاۃ(فتاوی ابن تیمیہ:۲؍۴۱۲)

احادیث
(۱)۱۹۷۲۳ – حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللهِ قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي غَلَّابٍ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللهِ الرَّقَاشِيِّ، عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: عَلَّمَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَلْيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ، وَإِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا ” (مسند احمد:۳۲؍۴۹۶)
(۲) ۴۷ – (۳۹۸) حدثنا سعيد بن منصور، وقتيبة بن سعيد، كلاهما عن أبي عوانة، قال سعيد: حدثنا أبو عوانة، عن قتادة، عن زرارة بن أوفى، عن عمران بن حصين، قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الظهر – أو العصر – فقال: «أيكم قرأ خلفي بسبح اسم ربك الأعلى؟» فقال رجل: أنا ولم أرد بها إلا الخير، قال: «قد علمت أن بعضكم خالجنيها»(صحیح مسلم :۱؍۲۹۸)
(۳)۸۵۰ – حدثنا علي بن محمد قال: حدثنا عبيد الله بن موسى، عن الحسن بن صالح، عن جابر، عن أبي الزبير، عن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من كان له إمام، فقراءة الإمام له قراءة»(سنن ابن ماجہ :۱؍۲۷۷)
ترجمہ:جو شخص کسی امام کی اقتداء میں نماز پڑھ رہا ہو تو امام کی قراءت اس کی بھی قراءت ہے۔
(۴)۹۲۱ – أخبرنا الجارود بن معاذ الترمذي، قال: حدثنا أبو خالد الأحمر، عن محمد بن عجلان، عن زيد بن أسلم، عن أبي صالح، عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا كبر فكبروا، وإذا قرأ فأنصتوا، وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا: اللهم ربنا لك الحمد(سنن النسائی :۱؍۲۷۷)
حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مسلک :

علامہ عینی ؒنے عمدۃ القاری شرح البخاری میں لکھا ہے کہ امام کے پیچھے نماز میں قراءت نہ کرنے کا مسلک تقریبا ً اسی(۸۰) صحابہ کرام ؓ سے ثابت ہے ، ان میں سے خاص خاص کے نام یہ ہے:حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر ِفاروقؓ،حضرت عثمان ؓ،حضرت علیؓ ،حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ،حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ،حضرت عبد اللہ بن عباسؓ،حضرت زید بن ثابت ؓ،حضرت جابر بن عبد اللہؓ ،حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ، اور حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہم اجمعین وغیرہم ۔ اسی طرح تابعین میں سےسعید بن جبیرؒ،سوید بن غفلہؒ ،سعید بن المسیبؒ،محمد بن سیرینؒ،علقمہؒ، ابراہیمؒ نخعی وغیرہ ۔اور تبع ِ تابعین میں سے سفیان ثوریؒ، سفیان بن عیینہؒ ،امام اوزاعیؒ ،امام لیث بن سعد رحمہم اللہ وغیرہ۔

لہذا احناف کے نزدیک امام کے پیچھے مقتدی کو قراءت کرنا درست نہیں ہے،جس کا ثبوت قرآنِ کریم،احادیثِ صحیحہ،آثارِ صحابہ اور جلیل القدر صحابہ کرام ؓ وتابعینِ عظام کے عمل سے ثابت ہے۔اس مسئلہ کی مزیدتفصیل کے لئے درج ِ ذیل کتابوں کا مطالعہ فرمائیں )۱)امام الکلام فی القراءۃ خلف الامام از مولانا عبد الحی لکھنویؒ (۲)الدلیل المحکم فی ترک القراءۃ للمؤتم از مولینامحمد قاسم نانوتوی ؒ (۳) ہدیۃ المعتدی فی ترک القراءۃ للمقتدی ،از مولینا رشید احمد گنگوہیؒ (۴)فاتحۃ الکلام فی القراءۃ خلف الامام ،از علامہ ظفر احمدتھانوی ؒ(۵)احسن الکلام فی ترک القراءۃ خلف الإمام از مولینا سرفراز خان صفدرؒ.وغیرہ(مأخوذ من التبویب وبعض الکتب الأخری )
====================
واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمد عاصم عصمہ اللہ تعالی

اپنا تبصرہ بھیجیں