رنگین عبایہ پہننے کا حکم

سوال:محترم جناب مفتیان کرام! السلام علیکم و رحمة الله وبركا ته!کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا رنگین عبایہ پہن سکتے ہیں؟ ڈھیلا ہو تو فٹنگ والا نہیں؟

الجواب باسم ملهم الصواب

وعلیکم السلام و رحمة الله!

واضح رہے کہ عبایہ کالے رنگ کا ہونا ضروری نہیں ،البتہ عبایہ میں یہ ضروری ہے کہ چست اور نقش و نگار والا نہ ہو اور اتنا باریک نہ ہو کہ اندر کا لباس نظر آئے،نیز ایسا رنگ نہ ہو جو نامحرموں کو اپنی طرف متوجہ کرنے والا ہو؛ کیونکہ ایسی عورتوں کے لیے حدیث میں سخت وعید آئی ہے جو نامحرم کو اپنی طرف متوجہ کرنے والی ہوں۔

مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں بہتر یہ ہے کہ رنگین عبایہ نہ پہنا جائے یا اگر رنگین پہننا ہوتو مذکورہ بالا شرائط کا خیال رکھتے ہوئے پہننے کی گنجائش ہوگی۔

=======================

حوالہ جات:

1-“صنفان من أهل النار لم أرهما: قوم معهم سياط كأذناب البقر يضربون بها الناس، ونساء كاسيات عاريات مميلات مائلات رؤوسهن كأسنمة البخت المائلة لايدخلن الجنة ولايجدن ريحها.” (صحیح مسلم: 7194)

ترجمہ:  جہنمیوں کی دوقسمیں ایسی ہیں جنہیں میں نے نہیں دیکھا، کچھ مردوں کےپاس گائے کی دموں جیسے کوڑے ہوں گے جن سے وہ لوگوں کو ماریں گے ( اوردوسری قسم ) اوروہ عورتیں جو کپڑے پہننے کے باوجود بھی ننگیں ہوں گی، وہ مائل ہونے والی اوردوسروں کو اپنی طرف مائل کرنے والی ہوں گی، ان کے سربختی اونٹوں کی کوہان جیسے اونچے ہوں گے، نہ تو جنت  میں داخل ہوں گی، اور نہ ہی اس کی ہوا کو  پائيں گی۔

2-“حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ جب آیت:{یدنین علیھن من جلابیبھن}نازل ہوئی تو انصاری عورتیں ایسے سکون سے باہر نکلتیں گویا ان کے سروں پر کوے بیٹھے ہوں اور وہ اپنے کپڑوں پر کالی چادریں اوڑھی ہوئی ہوتیں۔ ( فتاوی بینات، 372/4)

3-صحابیہ عورتیں کالے رنگ کے جلباب پہنا کرتی تھیں ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ برقعہ کا رنگ کالا ہونا زیادہ بہتر ہے اور اس کے اوپر بیل بوٹے وغیرہ نہ ہوں ،تو زیادہ مناسب ہے۔ “والمرط من أکسیۃ سود۔ (مسند أحمد بن حنبل,199/6، رقم:24886، مصنف عبد الرزاق، المجلس العلمي32/2، رقم:2377)(فتاوی قاسمیہ، 498/23)

و اللہ سبحانہ اعلم بالصواب

قمری تاریخ: 6 جمادی الاولی 1443ھ

عیسوی تاریخ: 11 دسمبر 2021ء

اپنا تبصرہ بھیجیں