شرعی پردہ کا حکم

فتویٰ نمبر:27

 واضح رہے کہ عورت کے لیے پردہ کرنا ہر نامحرم سے لازم ہے خواہ وہ رشتہ دار ہویا اجنبی ،ا لبتہ ا س میں حالات کے اعتبار سے  کچھ تفصیل ہے جو کہ حسب ذیل ہے :

 حجاب  شرعی  کے تین درجے  ہیں ، یہ تینوں درجے قرآن کریم ، احادیث  مبارکہ اور تعامل امت سے ثابت ہیں ، ایک مسلمان  دیندار عورت کے لیے  اپنی استطاعت  کے بقدر  ان تینوں پر عمل کرنا  ضروری ہے ۔

 پہلا درجہ یہ ہے کہ عورت  گھر میں  رہے ، بغیر  حاجت گھر سے  باہر ہی نہ نکلے  ، یعنی نامحرموں  کے سامنے اس  کا  چہرہ ہاتھ  اور پاؤں تو درکنار اس کا لباس میں ملبوس جسم  تک ظاہر نہ ہو۔

 دوسرا درجہ  یہ ہے کہ  عورت گھر سے  باہر نکلے  تو اس کا پورا جسم  برقعہ یا بڑی چادر سے اس طرح چھپا ہوا ہو کہ آنکھ کے سوا اس کے جسم کاکوئی حصہ نامحرم  کے سامنے ظاہر نہ ہو، البتہ  اگر ایک آنکھ  سے راستہ  دیکھنے میں  دشواری  ہوتو بضرورت  دوسری آنکھ  بھی کھلی  رکھی جاسکتی ہے ، نیز برقعہ  میں بھی حسب ذیل  اوصاف کا پایا جانا ضروری  ہے :

  • برقع  بذات خود سادہ اور باوقار ہو، پرزینتا ور جاذب نظر رنگوں سے مزین نہ ہو۔
  • اتنا موٹا ہو کہ اس میں سے بدن نہ جھلکے ۔
  • کشادہ اور فراخ ہو،ا یسا تنگ نہ ہو جس سے بدن کے نشیب  وفراز اور اعضاء  کی ہئیت  ظاہر ہو۔
  • اتنا بڑا ہوکہ اس سے بدن کا زینت والا لباس چھپ جائے ۔

تیسر ا درجہ یہ ہے کہ اگر سابقہ  دونوں درجوں پر عمل کرنا ممکن  نہ ہوسکے  تو ضرورت  اور حاجت  کے وقت عورت  اپنے دونوں قدموں  اور دونوں ہاتھ کھول کر  ۔۔اور مجبوری   کے وقت چہرہ  بھی بقدر  حاجت کھول کر نامحرموں کےسامنے  گزر  جائےا ور اپنے ضروری کاموں کو پورا کرلے ، مثلا ً مشترکہ  رہائش ہو، اورا س میں شوہر   کے ساتھ دیور  ، جیٹھ کی رہائش بھی ساتھ ہو اور گھریلو کام کاج اور دیگر  ضروریات کی وجہ سے  عورت  کو گھر کے نامحرم   مردوں  ( دیور وغیرہ)  کے سامنے آنا پڑتا ہو اور مکمل پردہ  کرنے  میں دشواری  ہوتی ہوتو ایسی صورت میں عورت ہاتھ ، پاؤں  اور چہرہ  کے علاوہ باقی  سر کے بالوں  سمیت  تمام بدن  کو بڑی  چادر میں ڈھانپ  کر مردوں کے سامنے  گزر کر اپنا کام کرسکتی  ہے ، کھلے بالوں  اور کھلی ہوئی   کلائیوں کے ساتھ سامنے آنا  ہرگز جائز نہیں ، لہذا عورت  پر لازم   ہے کہ وہ سر کے بال ، کلائیاں  اور پنڈلیاں  وغیرہ کپڑے  سے بالکل چھپا کر رکھے ،ا ورا یسی صورت  میں نامحرم مردوں  پر بھی لازم ہے کہ وہ حتی الامکان اپنی نظریں نیچی رکھیں اور غیر محرم  عورت کے ہاتھ پاؤں  ، چہرے  کو اپنے اختیار  سے نہ  دیکھیں ، نیز اس بات کا خاص خیال  رکھاجائے کہ گھر میں کبھی  نامحرم سے خلوت  یعنی تنہائی کی نوبت  نہ آئے  اور ان سے بے تکلفانہ  اور بے حجابانہ  گفتگو نہ کی جائے۔ ( ماخذپ ‘ تبویب  :174/18،266/19)  ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں ۔

  • معارف القرآن : مفتی اعظم پاکستان  مفتی محمد شفیع  صاحب قدس سرہ  ( ج 7 ص 204، سورہ احزاب  )
  • احکام القرآن  : حکیم الامت  حضرت تھانوی  قدس سرہ  ( ج 3، ص 454 )
  • تکملہ فتح الملہم : شیخ الاسلام  حضرت مولانا مفتی  محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم  ( ج 4 ص 261 :  مسئلہ حجاب المرآۃ وحدودھا  )

واللہ سبحانہ وتعالیٰ

 محمد طاہر غفرلہ  دارالافتاء جامعہ دارالعلوم  کراچی

پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیے لنک پر کلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/566107857091797/

اپنا تبصرہ بھیجیں