شرعاً حیض کی ابتدا کب سے مانی جائے گی؟

سوال:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

پلیز میری رہنمائی فرمادیں

میں  ایک علاج کروارہی ہوں اب مجھے ڈاکٹرز سے پتا چلا ھے کہ میڈیکل کی رو سے جب بلیڈنگ یعنی خون کا بھاؤ شروع ہو جاتا ھے تو وہ پہلا دن ہوتا ہے.

لیکن میرے ساتھ یہ ہوتا ہے کہ پہلے داغ لگتا ہے براؤن کلر کا کبھی دو دن چلتا ہے اور کبھی تین دن پھر جا کے بہاؤ شروع ہوتا ہے

تو شریعت کی رو سے پہلے داغ پہ کیا یہ حیض ہی ہے اور نماز روزوں کاکیا حکم ہے.

میں  کنفیوز ہو گئی ہوں. پلیز حدیث کے حوالہ کے ساتھ رھنمائی فرمادیں  میں نے اپنی شوھر کو بھی کلیر کرنا ہے۔

الجواب باسم ملھم الصواب

وعلیکم سلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

♦️ تمہید 

شریعت مطہرہ نے جہاں زندگی کے ہر پہلو میں واضح احکامات دے کر امت کی رہنمائی کی ہے۔ وہاں وہ مسائل جو خواتین کے ساتھ خاص ہیں ان میں بھی واضح رہنما اصول دے کر امت کی بیٹیوں کی رہنمائی کی گئی ہے۔

جیسا کہ ہر ایک کو معلوم ہے کہ حیض،نفاس اور استحاضہ کے مسائل ایسے مسائل ہیں جن کے اوپر خواتین کے بہت سارے عبادات کا دارومدار ہوتا ہے ۔یعنی وہ عبادات جن کے لئے طہارت شرط ہے۔جیسے نماز، روزہ ،اعتکاف، حج و عمرہ، تلاوۃ کلام پاک وغیرہ۔جب اتنے سارے عبادات کی صحت ان مسائل کے درست علم پر موقوف ہے تو ایسے میں یہ کیسے ممکن تھا کہ شریعت ان مسائل میں امت کی خواتین کی رہنمائی نہ کرتی۔جب یہ معلوم ہوگیا کیا کہ اسلام میں ان مسائل میں بھی رہنما اصول موجود ہیں تو اب اصل جواب کی طرف آتے ہیں اور دیکھتے ہیں اسلام ہمیں اس بارے میں کیا کہتا ہے؟

♦️ اصل جواب: 

مفتی بہ قول کے مطابق حیض کا خون جاری ہونے سے پہلے جو دھبے آتے ہیں(جو اکثر اوقات خالص خون نہیں ہوتا،بلکہ سبز،کالے یا کسی اور رنگ کے ہوتے ہیں )وہ بھی حیض ہی شمار کیاجائے گا۔(بشرط یہ کہ ایام حیض میں آئے )

اس کے لیے عقلی و نقلی دلائل ملاحظہ ہوں

🔆 کتاب اللہ سے دلیل* 

{و یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡمَحِیۡضِ ؕ قُلۡ ہُوَ اَذًی ۙ فَاعۡتَزِلُوا النِّسَآءَ فِی الۡمَحِیۡضِ ۙ وَ لَا تَقۡرَبُوۡہُنَّ حَتّٰی یَطۡہُرۡنَ ۚ}

ترجمہ:

اور لوگ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجیے کہ وہ گندگی ہے لہذا حیض کی حالت میں عورتوں سے الگ رہو، اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ان سے قربت (یعنی جماع) نہ کرو۔۔۔(سورۃ البقرہ:222)

♦️ وجہ استدلال

قرآن میں حیض کو گندگی کہا گیاہے،اور اذی یعنی گندگی کا ہونا خون کے بہاؤ اور سیلان کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ ان دھبوں پر بھی اذی کا اطلاق ہوتا ہے خواہ وہ سفیدی کے علاؤہ کسی بھی رنگ کا ہو ،تھوڑا ہو یا زیادہ ۔

🔆 حدیث سے دلیل

♦️عن علقمة بن أبي علقمة عن أمه مولاة عائشة رضي الله عنها انها قالت: كانت النساء يبعثن إلى عائشة أم المؤمنين بالدَّرَجة فيها الكُرسُفُ فيه الصُّفرة من دم الحيضة يسألنها عن الصلاة! فتقول لهن: لاتعجلن حتى ترين القصة البيضاء، تريد بذلك الطهر من الحيضة. 

(رواه مالك في المؤطأ رقم الحديث 127 باب طهر الحائض)

ترجمہ 

علقمہ اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں کہ: عورتیں گدی کو کسی ڈبیا میں رکھ کر ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ کے پاس بھیجتی تھیں جس میں زرد کا خون ہوتا تھا اور وہ اس سے نماز کے بارے پوچھتیں! تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتیں: جلدی مت کرو یہاں تک کہ بالکل سفید رطوبت دیکھ لو، اس سے وہ طہر مراد لیتی تھیں۔

♦️ وجہ استدلال 

صحابہ کی خواتین حیض کے اختتام کے دنوں میں روئی/کرسف (وہ روئی یا کپڑا جو خواتین استعمال کرتی ہیں اور فرج پر رکھتی ہیں خون کو کپڑوں پر آنے سے روکنے کے لیے) جس پر زردی (دھبہ) لگا ہوتا تھا، امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجتی تھیں یہ پوچھنے کے لیے کہ آیا ان کو پاکی ملی یا نہیں؟ جب اس کے اوپر ذرا سی زردی ہوتی تو امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ ابھی جلدی نہ کریں بلکہ انتظار کریں جب تک کہ گدی بالکل سفید نہ ہو جائے۔

جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ دھبے جو کے حیض کے اختتام پر آتے ہیں یا حیض کے ابتدا میں آتے ہیں اگر چہ اس میں خون کا بہاؤ نہیں ہوتا لیکن امی عائشہ رضی اللہ عنہ اس کو بھی حیض ہی شمار کر کے انتظار کرنے کا کہتیں۔

اس اثر میں صراحتاً اس بات پر دلالت موجود ہے کہ وہ دھبے جو عادت کے دنوں میں خواتین کو آتے ہیں وہ حیض ہی شمار ہوں گے۔حیض ہونے کے لیے خون کا بہاؤ لازم نہیں۔

🔆 عقلی دلیل: 

میڈکل سائنس سے پہلا سوال یہ کہ اگر کسی خاتون کی عادت ایسی ہو کہ اس کو خون کا سیلان آتا ہی نہیں بلکہ اس کو دھبے ہی آتے ہیں(اور حقیقتا مختلف خواتین کی یہی عادت ہوتی ہے) اور ہر مہینے عادت کے دن میں دھبے آکر رک جاتے ہیں اور وہ پاک ہو جاتی ہے تو کیا میڈیکل یہ کہتی ہے کہ اس خاتون کو حیض آیا ہی نہیں،یا وہ اس حیض کو حیض شمار کرنے سے انکاری ہے؟

یقیناً ایسا نہیں ہوگا اور اس خاتون کے حق میں یہی اس کا حیض تصور کیا جائے گا۔

میڈکل سائنس سے دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر حیض سے پہلے آنے والے دھبے حیض نہیں ہے تو یہ حیض کے خون سے چند دن پہلے ہی کیوں آتے ہیں پاکی کے باقی دنوں میں کیوں نہیں آتے؟

جب باقی دنوں میں نہیں آتے(اور اگر طہر میں آئے تو اسکو ہم بھی استحاضہ کہتے ہیں حیض نہیں کہتے )تو ثابت ہو گیا کہ یہ بھی حیض ہی شمار ہوگا اور یقیناً یہ حیض ہی ہے۔

لہذا صورت مسؤلہ میں ،ایسی خاتون کہ جس کو شروع کے چند دن دھبے آتے ہیں اور پھر تین چار روز خون کا بہاؤ تیز ہوتا ہے اور دس دنوں کے اندر اندر (جو حیض کی اکثر مدت ہے)پاک ہو جاتی ہے۔تو یہاں شرعاً دھبوں کے ابتدا سے ہی اس کے حیض کی ابتدا مانی جائے گی اور یہ پورا کا پورا حیض شمار کیا جائے گا،اگرچہ میڈکل کا موقف اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

کیونکہ اسلام میں احکامات کا مدار ظاہر پر ہے ،میڈکل کی باریکیوں پر نہیں۔اسلام کے احکامات چودہ سو سال سے نافذ العمل ہیں، جبکہ میڈکل کی تحقیقات تو بہت دیر سے آئی۔اور کل کو بالفرض اگر یہ سائنسی آلات نہ رہے تو بھی اسلام کے احکامات ایسے ہی رہیں گے۔

سائنس کی تحقیقات حرف آخر نہیں ہوسکتے کیونکہ آج ایک تحقیق سے ایک بات ثابت ہوئی تو کل دوسری تحقیق اسی کو رد کر دیتی ہے، جبکہ اسلامی تعلیمات ابدی ہے تا قیامت سدا بہار رہیں گے۔ البتہ وہ سائنس جو مشاہدے اور تجربات سے درست ثابت ہوچکی ہو وہ کبھی اسلام کے مخالف نہیں ہوتی۔

====================

🔹 (کتاب شرح القسطلاني = إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري[القسطلاني]فصول الكتاب ج: ص:358) 

19 – باب إِقْبَالِ الْمَحِيضِ وَإِدْبَارِهِ

“وكُنَّ نِسَاءٌ يَبْعَثْنَ إِلَى عَائِشَةَ بِالدُّرْجَةِ فِيهَا الْكُرْسُفُ فِيهِ الصُّفْرَةُ فَتَقُولُ: لاَ تَعْجَلْنَ حَتَّى تَرَيْنَ الْقَصَّةَ الْبَيْضَاءَ، تُرِيدُ بِذَلِكَ الطُّهْرَ مِنَ الْحَيْضَةِ. وَبَلَغَ ابْنَةَ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ نِسَاءً يَدْعُونَ بِالْمَصَابِيحِ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ يَنْظُرْنَ إِلَى الطُّهْرِ فَقَالَتْ: مَا كَانَ النِّسَاءُ يَصْنَعْنَ هَذَا. وَعَابَتْ عَلَيْهِنَّ.۔۔۔۔۔۔۔۔

(باب إقبال المحيض وإدباره وكن نساء) بالرفع بدل من ضمير كن على لغة أكلوني البراغيث، وفائدة ذكره بعد أن علم من لفظ كنّ إشارة إلى التنويع والتنوين يدل عليه أي كان ذلك من بعضهن لا من كلهن (يبعثن إلى عائشة) رضي الله عنها (بالدرجة) بكسر الدال وفتح الراء والجيم جمع درج بالضم ثمّ السكون، وبضم أوّله وسكون ثانيه في قول ابن قرقول، وبه ضبطه ابن عبد البرّ في الموطأ، وعند الباجي بفتح الأوّلين ونوزع قيه وهي وعاء أو خرقة (فيها الكرسف) بضم الكاف وإسكان الراء وضم السين آخره فاء أي القطن (فيه) أي في القطن (الصفرة) الحاصلة من أثر دم الحيض بعد وضع ذلك في الفرج لاختبار الطهر، وإنما اختير القطن لبياضه ولأنه ينشف الرطوبة فيظهر فيه من آثار الدم ما لم يظهر في غيره. (فتقول) عائشة لهن: (لا تعجلن حتى ترين) بسكون اللام والمثناة التحتية (القصة البيضاء تريد بذلك الطهر من الحيضة) بفتح القاف وتشديد الصاد المهملة ماء أبيض يكون آخر الحيض يتبين به نقاء الرحم تشبيهًا بالجص وهو النورة، ومنه قصص داره أي جصصها. وقال الهروي: معناه أن يخرج ما تحتشي به الحائض نقيًا كالقصة كأنه ذهب إلى الجفوف.

قال القاضي عياض: وبينهما عند النساء وأهل المعرفة فرق بيِّن انتهى.

……… وفيه دلالة على أن الصفرة والكدرة في أيام الحيض حيض. وهذا الأثر رواه مالك في

الموطأ من حديث علقمة بن أبي علقمة المدني عن أمه مرجانة مولاة عائشة، وقد علم أن إقبال المحيض يكون بالدفعة من الدم وإدباره بالقصة أو بالجفاف.”

🔹 ۔(الفتاوی التاتارخانیۃ ۱/ ۳۲۸) 

فتاوی تاتار خانیہ میں ہے :

وکان الشیخ ابومنصورالماتریدی ؒمرۃ یقول:فی الصفرۃ اذا رأتہا ابتداء فی زمان الحیض انہا حیض، وأما اذا رأتہا فی زمان الطہرواتصل ذلک بزمان الحیض فانہا لاتکون حیضاً۔ومرۃ یقول:اذا اعتادت المرأۃ ان تری ایام الطہرصفرۃ وایام الحیض حمرۃ فحکم صفرتہا یکون حکم الطہرحتی لوامتدت الطہرہی بہا لم یحکم بہا بالحیض فی شیء فی ھذہ الصفرۃ،وحکمہاحکم الطہرعلی قول اکثرالمشایخ رحمہم اللّٰہ”

🔹 (المبسوط للسرخسی:کتاب الحیض والنفاس ،فَصْلٌ أَلْوَانُ مَا تَرَاهُ الْمَرْأَةُ فِي أَيَّامِ الْحَيْضِ) 

“(فَصْلٌ أَلْوَانُ مَا تَرَاهُ الْمَرْأَةُ فِي أَيَّامِ الْحَيْضِ) سِتَّةٌ السَّوَادُ وَالْحُمْرَةُ وَالصُّفْرَةُ وَالْكَدِرَةُ وَالْخُضْرَةُ وَالتَّرْبِيَةُ أَمَّا السَّوَادُ فَغَيْرُ مُشْكِلٍ أَنَّهُ حَيْضٌ لِقَوْلِهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – «دَمُ الْحَيْضِ أَسْوَدُ عَبِيطٌ» مُحْتَدِمٌ وَالْحُمْرَةُ كَذَلِكَ، فَهُوَ اللَّوْنُ الْأَصْلِيُّ لِلدَّمِ إلَّا أَنَّ عِنْدَ غَلَبَةِ السَّوْدَاءِ يَضْرِبُ إلَى السَّوَادِ وَعِنْدَ غَلَبَةِ الصَّفْرَاءِ يَرِقُّ فَيَضْرِبُ إلَى الصُّفْرَةِ وَيَتَبَيَّنُ ذَلِكَ لِمَنْ افْتَصَدَ وَالصُّفْرَةُ كَذَلِكَ حَيْضٌ؛ لِأَنَّهَا مِنْ أَلْوَانِ الدَّمِ إذَا رَقَّ وَقِيلَ هُوَ كَصُفْرَةِ السِّنِّ أَوْ كَصُفْرَةِ التِّبْنِ أَوْ كَصُفْرَةِ الْقَزِّ، وَأَمَّا الْكَدِرَةُ فَلَوْنٌ كَلَوْنِ الْمَاءِ الْكَدِرِ، وَهُوَ حَيْضٌ فِي قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَهُمَا اللَّهُ تَعَالَى سَوَاءٌ رَأَتْ فِي أَوَّلِ أَيَّامِهَا أَوْ فِي آخِرِ أَيَّامِهَا، وَقَالَ أَبُو يُوسُفَ – رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى – إنْ رَأَتْ الْكَدِرَةَ فِي أَوَّلِ أَيَّامِهَا لَمْ يَكُنْ حَيْضًا، وَإِنْ رَأَتْ فِي آخِرِ أَيَّامِهَا يَكُونُ حَيْضًا قَالَ: لِأَنَّ الْكَدِرَةَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ تَتْبَعُ صَافِيَهُ فَإِذَا تَقَدَّمَهُ دَمٌ أَمْكَنَ جَعْلُ الْكَدِرَةِ حَيْضًا تَبَعًا فَأَمَّا إذَا لَمْ يَتَقَدَّمْهَا دَمٌ لَوْ جَعَلْنَاهُ حَيْضًا كَانَ مَقْصُودًا لَا تَبَعًا، وَهُمَا يَقُولَانِ: مَا يَكُونُ حَيْضًا إذَا رَأَتْهُ الْمَرْأَةُ فِي آخِرِ أَيَّامِهَا يَكُونُ حَيْضًا إذَا رَأَتْهُ فِي أَوَّلِ أَيَّامِهَا كَالسَّوَادِ وَالْحُمْرَةِ؛ لِأَنَّ جَمِيعَ مُدَّةِ الْحَيْضِ فِي حُكْمِ وَقْتٍ وَاحِدٍ وَمَا قَالَهُ أَبُو يُوسُفَ – رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى – فِيمَا إذَا كَانَ النَّقْبُ مِنْ أَعْلَى الظَّرْفِ فَأَمَّا إذَا كَانَ النَّقْبُ مِنْ أَسْفَلِهِ فَالْكَدِرَةُ يَسْبِقُ خُرُوجَهَا الصَّافِي وَهُنَا النَّقْبُ مِنْ أَسْفَلَ فَجَعَلْنَا الْكَدِرَةَ حَيْضًا، وَإِنْ رَأَتْهُ ابْتِدَاءً، وَأَمَّا الْخُضْرَةُ فَقَدْ أَنْكَرَ بَعْضُ مَشَايِخِنَا وُجُودَهَا حَتَّى قَالَ أَبُو نَصْرِ بْنُ سَلَّامٍ حِينَ سُئِلَ عَنْ الْخُضْرَةِ كَأَنَّهَا أَكَلَتْ قَصِيلًا عَلَى طَرِيقِ الِاسْتِبْعَادِ، وَذَكَرَ أَبُو عَلِيٍّ الدَّقَّاقُ أَنَّ الْخُضْرَةَ نَوْعٌ مِنْ الْكَدِرَةِ وَالْجَوَابُ فِيهَا عَلَى الِاخْتِلَافِ الَّذِي بَيَّنَّا، وَأَمَّا التَّرْبِيَةُ، فَهُوَ مَا يَكُونُ لَوْنُهُ كَلَوْنِ التُّرَابِ، وَهُوَ نَوْعٌ مِنْ الْكَدِرَةِ؛ وَقَدْ رُوِيَ «عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ وَكَانَتْ غَزَتْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – ثِنْتَيْ عَشَرَةَ غَزْوَةً قَالَتْ كُنَّا نَعُدُّ التَّرْبِيَةَ حَيْضًا» وَالْأَصْلُ فِيهِ قَوْله تَعَالَى {وَيَسْأَلُونَك عَنْ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى} [البقرة: 222] وَجَمِيعُ هَذِهِ الْأَلْوَانِ فِي حُكْمِ الْأَذَى سَوَاءٌ. وَرُوِيَ أَنَّ النِّسَاءَ كُنَّ يَبْعَثْنَ بِالْكُرْسُفِ إلَى عَائِشَةَ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا – لِتَنْظُرَ فَكَانَتْ إذَا رَأَتْ كَدِرَةً قَالَتْ لَا حَتَّى تَرَيْنَ الْقُصَّةَ الْبَيْضَاءَ يَعْنِي الْبَيَاضَ الْخَالِصَ وَالْقُصَّةَ الطِّينُ الَّذِي يُغْسَلُ بِهِ الرَّأْسُ، وَهُوَ أَبْيَضُ يَضْرِبُ لَوْنُهُ إلَى الصُّفْرَةِ فَإِنَّمَا أَرَادَتْ أَنَّهَا لَا تَخْرُجُ مِنْ الْحَيْضِ حَتَّى تَرَى الْبَيَاضَ الْخَالِصَ”

فقط-واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب 

قمری تاریخ:26 ربیع الثانی،1442ھ

شمسی تاریخ:12 دسمبر،2020

اپنا تبصرہ بھیجیں