فتویٰ نمبر:4081
سوال:السلام علیکم ورحمۃ اللہ
مسئلہ پوچھنا ہےایک بچی ہے اس کے والد سید ہیں انھوں اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے.اب بچی کی پرورش اس کے ماموں کر رہے ہیں والد خرچ وغیرہ نہیں دیتے.بچی کے ماموں ایسے ادارے میں کام کرتے ہیں جہاں صدقہ و زکوۃ کی رقم سے غرباء کی مدد کی جاتی ہے اور وہ وہاں پہ فائنینس ڈیپارٹمنٹ میں ہیڈ ہیں انکی سیلری بھی اسی ادارے سے آتی ہے کیا اس بچی پہ یہ رقم خرچ کرنا درست ہے ؟ یاد رہے کہ بچی باپ کی طرف سے سید ہے،رہنمائی فرمادیجیے
سائلہ کا نام: بنت اسحاق
پتا: کراچی
والسلام
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ برکاتہٗ
الجواب حامداًو مصلياً
ادارے کے اندر جو رقم غرباء کی امداد کے لیے زکوٰۃ کی مد میں آتی ہے تو اس رقم کو بچی پر خرچ نہیں کرسکتے البتہ صدقات نافلہ بچی پر خرچ کیے جاسکتے ہیں نیز ماموں جو بچی کی کفالت اپنی تنخواہ سے کر رہے ہیں وہ بطور ہدیہ اور صدقہ کے کر رہے ہیں یہ جائز ہے۔
اسی طرح اگر زکوٰۃ کی مد میں آنے والی رقم کو ماں کے حوالے کردیا جائے (بشرطیکہ ماں زکوٰۃ وصول کرنے کی مستحق ہو)اور ماں خود بچی پر خرچ کرے تو یہ صورت بھی جائز ہے کیونکہ اس صورت میں بھی رقم بطور زکوٰۃ بچی پر خرچ نہیں ہورہی۔
عن عائشۃ ؓ -إلی- فقلت ہذا ما تصدق بہ علی بریرۃ ، فقال: ہو لہا صدقۃ ، ولنا ہدیۃ۔ ( صحیح البخاری : الزکاۃ، باب الصدقۃ علی موالي أزواج النبی ﷺ ، النسخۃ الہندیۃ ،۲۰۲/۱)
و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ:۲۷جمادی الثانی 1۴۴۰ھ
عیسوی تاریخ:4مارچ 2019ء
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: