طلاق دینا حلال ہے یا حرام 

فتویٰ نمبر:877

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

طلاق دینا حلال ہے یا پھر حرام؟

والسلام

الجواب حامدۃو مصلية

وعلیکم السلام!

نکاح معاشرہ کے سُدھار، مرد وعورت کے آپسی حقوق کی ادائیگی، فطری جنسی جذبات وخواہشات کی تسکین، انسانیت کی بقاء اور صحیح نظامِ زندگی جینے کا ایک بہترین ذریعہ ہے، نکاح زندگی کے آخری سانس تک کا ایک غیر منقطع بندھن ہوتا ہے، لیکن چونکہ انسانوں کی طبیعتیں اور فطرتیں مختلف ہوتی ہیں بالکل یکسانیت کسی میں بھی نہیں ہوتی، اسی فطری تقاضہ کے مطابق میاں بیوی کی خوش گوار زندگی میں کہیں ایسا موڑ بھی آجاتا ہے کہ ان میں نا اتفاقی ہوجاتی ہے، کبھی تو یہ نا اتفاقی معمولی ہوتی ہے جو چند گھنٹوں یا چند دنو ں میں ختم ہوجاتی ہے اور کبھی کبھی مؤثر اور مضبوط سبب کی وجہ سے اتنی پائیدار ہوجاتی ہے کہ ایک دوسرے سے پیچھا چھڑانا ناگزیر ہوجاتا ہے۔

مثلاً:

بدخلقی کی وجہ سے آپس میں نبھاؤ نہ ہوپانا ۔

مالی تنگی کی وجہ سے حقوق کی اَدائیگی میں کوتاہی پیش آنا ۔

 گھریلو یا ذاتی باتوں کی وجہ سے نباہ نہ ہوپانا وغیرہ وغیرہ

اب اگر طلاق کی بالکل ممانعت کردی جاتی تو یہ نکاح دونوں کے لئے سخت فتنہ اور پریشانی کا سبب بن جاتا ، اِس لئے شریعت اسلامی نے ضرورت کا لحاظ کرتے ہوئے بوقت ضرورت طلاق کی گنجائش دی ہے ؛ لیکن بلاضرورت طلاق کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ہے ؛ بلکہ اُسے ناپسند قرار دیا گیا ہے ۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ اللہ کے نزدیک حلال باتوں میں سب سے زیادہ ناپسند بات طلاق ہے ‘‘ ۔ ( مشکوٰۃ شریف حدیث : ۳۲۸۰ )

عن ابن عمر أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم : أبغض الحلال إلی اللّٰہ الطلاق ۔ ( مشکاۃ المصابیح / کتاب الطلاق رقم : ۳۲۸۰ ، حجۃ اللّٰہ البالغۃ مع رحمۃ اللّٰہ الواسعۃ ۵ ؍ ۱۴۰ ) 

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ’’ جو عورت بغیر کسی معقول وجہ کے اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے اُس پر جنت کی خوشبو حرام ہے ‘‘ ۔ ( ابوداؤد شریف ۱ ؍ ۳۰۳ ، تفسیر ابن کثیر مکمل ۱۸۳ ) 

عن ثوبان رضي اللّٰہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : أیما امرأۃ سألت زوجہا طلاقًا من غیر ما بأس فحرام علیہا رائحۃ الجنۃ ۔ ( سنن أبي داؤد / باب في الخلع ۱ ؍ ۳۰۳ رقم : ۲۲۲۶ )

وأما سببہ ، فالحاجۃ إلی الخلاص عند تباین الأخلاق وعروض البغضاء الموجبۃ عدم إقامۃ حدود اللّٰہ تعالیٰ وشرعہٖ رحمۃ منہ سبحانہ ۔ ( البحر الرائق / أول کتاب الطلاق ۳ ؍ ۴۱۲ زکریا ) 

أن الأصل في الطلاق ہو الحظر لما فیہ من قطع النکاح الذی تعلقت بہ المصالح الدینیۃ والدنیویۃ والإباحۃ للحاجۃ إلی الخلاص ۔ ( البحر الرائق ۳ ؍ ۴۱۳ زکریا ) 

لأن الطلاق محظورٌ فلا یباح الإقدام علیہ إلا لدفع حاجۃ التخلص عنہا بتنافر الأخلاق ۔ ( تبیین الحقائق / کتاب الطلاق ۳ ؍ ۲۳ زکریا ) 

ومع ذٰلک لا یمکن سدّ ہٰذا اللباب ، والتضییق فیہ ؛ فإنہ قد یصیر الزوجان متناشزین ، إما لسوء خلقہا ، أو لطموح عین أحدہا إلی حسن إنسان أخر ، أو لضیق معیشتہا ، أو لخرق واحد منہا ، ونحو ذٰلک من الأسباب ، فیکون إدامۃ ہٰذا النظم مع ذٰلک بلائً عظیمًا وحرجًا ۔ ( رحمۃ اللّٰہ الواسعۃ مع حجۃ اللّٰہ البالغۃ ۵ ؍ ۱۴۰ ) 

وأما سببہ فہو الحاجۃ المحوجۃ إلی الطلاق من المشاجرۃ وعدم الموافقۃ ورغبۃ استبدال غیرہا ۔ ( الفتاویٰ التاتارخانیۃ / کتاب الطلاق ۴ ؍ ۳۷۷ رقم : ۶۴۷۱ زکریا ) 

وإیقاعہ مباح عند العامۃ لإطلاق الآیۃ أکمل ۔ وقیل : الأصح حظرہ أي منعہ إلا لحاجۃٍ کریبۃٍ وکبر … ، معناہ : أن الشارع ترک ہٰذا الأصل فأباحہ ۔ ( الدر المختار مع الشامي / کتاب الطلاق ۴ ؍ ۴۲۷ زکریا ) 

وأما وصفہ : فہو أنہ محظور نظرًا إلی الأصل ، ومباح نظرًا إلی الحاجۃ ، کذا في الکافي ۔ ( الفتاویٰ الہندیۃ / الباب الأول في تفسیرہ ورکنہ ۱ ؍ ۳۴۸ زکریا )

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ: 12 محرم الحرام 1440 ھ

عیسوی تاریخ: 23 ستمبر 2018 ء

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

📮ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں