وجوب زکوة کے لیے حولان حول کی شرط 

فتویٰ نمبر:5008

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎۔۔۔ایک خاتون نے سوال پوچھا ہے کہ دو سال پہلے ان کے بیٹے نے سات لاکھ کا پلاٹ خریدا تھا ، پچھلے سال رمضان میں ان گھر والوں پر قرض چڑھا ہوا تھا تو اس پلاٹ کی زکوة نہیں نکالی تھی، اس سال رمضان سے پہلے بارہ لاکھ میں سیل کردیا اور پھر دس لاکھ میں دوسرا پلاٹ خرید لیا۔

اب ان کا سوال یہ ہے کہ اس دوسرے پلاٹ کو ایک سال نہیں ہوا ہے تو کیا اس پر زکوة بنتی ہے؟

تنقیح: پلاٹ کس نیت سے خریدا تھا؟

جواب تنقیح: پلاٹ بیچنے کی نیت سے خریدا تھا کہ جب مناسب دام ملیں گے بیچ دیں گے۔

والسلام

الجواب حامداو مصليا

پہلی بات تو یہ سمجھیے کہ زکوة واجب ہونے کے لیے قمری حساب سے نصاب پر مکمل سال گزرنا ضروری ہوتا ہے رمضان کے مہینے کی قید نہیں ہے۔

مذکورہ صورت میں اس پلاٹ پر چونکہ سال مکمل نہیں ہوا ہے اس لیے فی الحال زکوة واجب نہیں ہے، لیکن اگر پلاٹ کے مالک پہلے سے ہی صاحب نصاب ہیں تو جب اس نصاب پر سال مکمل ہوجاۓ گا تو کُل مال کے ساتھ اس پلاٹ کی قیمت کا بھی حساب لگا کر زکوة دینی ہوگی۔

نیز یہ بات بھی واضح ہو کہ گزشتہ پلاٹ اگر بیچنے کی نیت سے لیا تھا تو اس پر جو قرضہ تھا اگر اس نے پلاٹ کی مکمل قیمت کو گھیر لیا تھا تو زکوة ساقط ہوجائے گی، لیکن اگر قرضہ نکال کر اتنا مال بچ رہا تھا جو نصاب کے بقدر تھا تو اس کی بھی زکوة دینی ہوگی۔

( نجم الفتاوی: ٤٢٦/٣)

١۔” عن عاٸشةؓ قالت سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول ” لا زکوة فی مال حتی یحول علیہ الحول۔“

( سنن ابن ماجہ: ١٢٨/١)

٢۔” الزکوة واجبة علی الحر العاقل البالغ المسلم اذا ملک نصابا تاما و حال علیہ الحول۔“

( الھدایة:٢٠٠/١)

فقط۔

واللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ: ٧۔٩۔١٤٤٠ھ

عیسوی تاریخ: ٢٠١٩۔٥۔١٣

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں